رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے یہ بات سائفر کیس میں اپنے تحریری بیان میں کہی جو کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے تفتیشی افسر کے سامنے ریکارڈ کروایا گیا۔
اسد مجید کا یہ بیان سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے وکیل کے حوالے کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ان دونوں سرکردہ رہنمائوں کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر ٹیکسٹ افشا کرنے کی ایف آئی آر میں مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سائفر لہرانے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ختم ہوگئے تھے
گزشتہ روز خصوصی عدالتکی کارروائی کے دوران استغاثہ نے چالان اور گواہوں کے بیانات کی کاپیاں وکیل دفاع کے حوالے کیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف 2022 میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد انہوں نے امریکا پر الزام لگایا تھا کہ وہ سائفر کو بنیاد بنا کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہا ہے۔
سابق سفیر اسد مجید کے مطابق وہ سمجھتے ہیںکہ سائفر واقعے نے ہمارے مواصلاتی نظام کی سالمیت، ہمارے سفارت کاروں کی ساکھ اور ہماری سفارت کاری کو نقصان پہنچایا ہے، جس کے ہمارے مستقبل کے سفارتی رپورٹنگ کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ڈاکٹر اسد مجید استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے 30 گواہوں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی معاون وزیر برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ان کی ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کو معلوم تھا کہ بات چیت کے منٹس تیار کیے جا رہے ہیں، جس کی تفصیلات پاکستان کے غیر ملکی مشنز اور وزارت خارجہ کے اشتراک کردہ خفیہ کوڈڈ کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے اسلام آباد کو بھیجی گئیں۔