15
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) بچپن کو عام طور پر معصومیت، کھیل، مسکراہٹوں اور لاپرواہی کے دن کہا جاتا ہے۔
لیکن یہ تصویر ہمیشہ ہر بچے کے لیے حقیقت نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں لاکھوں بچے ایسے ماحول میں پلتے ہیں جہاں انہیں بدسلوکی، تشدد، نظرانداز کیے جانے یا سنگین حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، ایسے تجربات بچے کے دل و دماغ پر نہ صرف اُس وقت گہرا اثر ڈالتے ہیں بلکہ یہ اثرات بڑے ہو کر بھی انسان کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بچپن کے یہ زخم کیا بڑھاپے میں ناسور بن سکتے ہیں؟ اس رپورٹ میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ بچپن کے صدمات کس طرح ذہنی و جسمانی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اور کون سے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
بچپن کے صدمات کی اقسام
بچپن کے صدمات صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں ہوتے۔ ان کی کئی اقسام ہیں:
1. جسمانی تشدد
مار پیٹ، زخمی کرنا یا بچے پر سخت جسمانی سزا دینا۔
2. جذباتی بدسلوکی
بچے کی تذلیل کرنا، بار بار طعنے دینا یا اسے لاوارث اور بوجھ سمجھنا۔
3. جنسی استحصال
جو بچے کی نفسیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
4. نظراندازی
بچے کو محبت، توجہ یا بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنا۔
5. حادثات یا سانحات
جنگ، غربت، یا قدرتی آفات جیسے تجربات۔
یہ تمام صورتیں بچے کے ذہن پر ایسے نقوش چھوڑتی ہیں جو وقت گزرنے کے باوجود مدھم نہیں ہوتے۔
دماغ پر گہرے اثرات
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جب بچہ مسلسل خوف اور دباؤ کا شکار رہتا ہے تو اُس کے دماغ میں موجود "امیگڈالا” (amygdala) اور "ہپوکیمپس” (hippocampus) جیسے حصے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔ یہ حصے خوف، یادداشت اور جذبات پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ نتیجتاً بڑے ہو کر وہ شخص عام حالات میں بھی غیرضروری طور پر گھبراہٹ، غصے یا شدید اداسی محسوس کرتا ہے۔
ذہنی بیماریوں کا خطرہ
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ جن افراد نے بچپن میں صدمات برداشت کیے ہوں، ان میں درج ذیل مسائل زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں
ڈپریشن:
زندگی میں دلچسپی ختم ہونا، مسلسل اداسی اور خودکشی کے خیالات۔
اینزائٹی:
ہر وقت خوف یا غیر یقینی کیفیت میں رہنا۔
پی ٹی ایس ڈی (Post Traumatic Stress Disorder) پرانے واقعات کی بار بار یادیں، ڈراؤنے خواب اور گھبراہٹ کے دورے۔
اعتماد کی کمی
دوسروں سے تعلقات بنانے میں دشواری، یا ہر وقت دفاعی رویہ۔
نشہ آور عادات: سگریٹ، شراب یا دیگر نشہ آور اشیاء پر انحصار۔
تعلقات پر اثرات
بچپن کے زخم صرف فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ اُس کے رشتوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو دوسروں پر اعتماد کرنے میں مشکل ہوتی ہے، وہ اکثر یا تو حد سے زیادہ محتاط اور سرد مہر ہوتے ہیں یا پھر غیرمعمولی حد تک چپکنے والے اور محتاج رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں تنازعات اور طلاق کی شرح بھی ایسے افراد میں زیادہ دیکھی گئی ہے۔
جسمانی صحت کے مسائل
دلچسپ بات یہ ہے کہ بچپن کے صدمات صرف ذہنی نہیں بلکہ جسمانی بیماریوں کا بھی باعث بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، ایسے افراد میں دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور قوتِ مدافعت کی کمزوری زیادہ عام پائی جاتی ہے۔ مسلسل ذہنی دباؤ جسم کے ہارمونز کو متاثر کرتا ہے، جو طویل مدتی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔
بڑھاپے میں سنگین نتائج
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن کے یہ زخم بڑھاپے میں خاص طور پر خطرناک ہو جاتے ہیں۔ جب انسان بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے تو ماضی کے یہ صدمات اُس کی ذہنی طاقت کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ ایسے افراد بڑھاپے میں زیادہ تنہا، ذہنی مریض اور سماجی سرگرمیوں سے کٹے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ڈیمینشیا اور الزائمر جیسی بیماریاں بھی ایسے افراد میں زیادہ پائی گئی ہیں جنہوں نے بچپن میں شدید صدمات کا سامنا کیا۔
سماجی رویے پر اثر
ایسے افراد اکثر دوسروں پر اعتماد نہیں کرتے اور سماج سے الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ جارحانہ ہو جاتے ہیں اور قانون توڑنے یا پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ یہ رویے نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
کیا سب بچے متاثر ہوتے ہیں؟
یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہر بچہ جو صدمہ برداشت کرتا ہے، وہ لازمی طور پر ذہنی مریض نہیں بنتا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اگر بچے کو بروقت جذباتی سہارا مل جائے، جیسے خاندان کا ساتھ، اساتذہ کی توجہ اور دوستانہ ماحول، تو منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
بچپن کے صدمات ایک ایسا خاموش زہر ہیں جو فوری طور پر اپنا اثر نہیں دکھاتے مگر برسوں بعد انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ یہ صدمات بڑھاپے میں ناسور بن کر ابھرتے ہیں اور انسان کی ذہنی و جسمانی زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر بروقت مدد، سپورٹ اور علاج فراہم کیا جائے تو ان کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔