اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) بینک آف کینیڈا نے ایک بار پھر اپنی کلیدی شرح سود 2.25 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،
جو بظاہر ایک معمول کا اعلان ہے، مگر درحقیقت یہ فیصلہ معیشت کی مجموعی سمت، اس کے چیلنجز اور مستقبل کی توقعات پر اہم اشارے دیتا ہے۔ عالمی تجارتی تنازعات اور امریکی ٹیرف پالیسیوں نے جس طرح کینیڈا کے صنعتی شعبوں پر دباؤ ڈالا ہے، اس کے باوجود ملکی معیشت نے جس مزاحمت اور بحالی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ خاص قابلِ توجہ ہے۔بینک آف کینیڈا کے گورنر ٹِف میک لیم نے اعتراف کیا ہے کہ معاشی منظرنامہ غیر یقینی ضرور ہے، لیکن کینیڈا کی مجموعی کارکردگی توقعات سے بہتر رہی ہے۔ شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ نہ صرف مہنگائی کو ہدف کے قریب رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ ملکی معیشت کو اس ’’ساختی تبدیلی‘‘ کے دوران سہارا بھی فراہم کرے گا جس کا ذکر بار بار کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض صنعتی شعبوں—جیسے اسٹیل، آٹو اور لکڑی—نے امریکی ٹیرف کے بوجھ کو پوری شدت سے محسوس کیا، مگر معیشت کے باقی حصے نسبتاً آزادانہ طور پر چلتے رہے، جس کے باعث بڑے پیمانے پر نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔ تازہ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جی ڈی پی اور روزگار کی شرح دونوں میں بہتری آئی ہے، جبکہ بے روزگاری کی سطح 6.5 فیصد تک کم ہونا معیشت کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔
تاہم اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، جس کا بینک نے خود اعتراف کیا—وہ یہ کہ عام شہری مہنگائی اور بڑھتے اخراجات کے دباؤ میں ہیں۔ ایک بڑے حصے کو روزمرہ ضروریات، خصوصاً خوراک، کے بل ادا کرنا مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ اگرچہ بینک آف کینیڈا مہنگائی کی کمی کو مجموعی سطح پر خطرناک سمجھتا ہے، کیونکہ اس سے معیشت جمود کا شکار ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قیمتیں بھی ایک عام گھرانے کے لیے بھاری ثابت ہو رہی ہیں۔
معاشی پالیسی کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح قیمتوں کو مزید بڑھنے سے روکا جائے، جبکہ معیشت کی رفتار کو بھی برقرار رکھا جائے۔ آنے والے سال میں جب کینیڈا۔امریکا۔میکسیکو تجارتی معاہدے کی تجدید کی جائے گی، اس کے اثرات یقینی طور پر معیشت کی سمت کا تعین کریں گے۔فی الحال، مرکزی بینک کا محتاط مگر اعتماد پر مبنی مؤقف اس بات کا اظہار ہے کہ کینیڈا کی معیشت نہ صرف عالمی جھٹکوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ مستقبل میں ایک مستحکم ترقی کی بنیاد بھی رکھ سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ مالیاتی اور تجارتی پالیسیوں میں ہم آہنگی برقرار رہے، اور عام شہریوں پر بڑھتے معاشی دباؤ کو کسی صورت نظر انداز نہ کیا جائے۔