اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کیوں کی ؟ حیرت انگیز انکشاف

اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) یروشلم، جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں طور پر مقدس شہر ہے، ایک بار پھر تنازع اور کشیدگی کا مرکز بن گیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی نے حالیہ دنوں میں سنگین دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے صحن اور اس کے اطراف میں خفیہ اور غیر قانونی کھدائی کر رہا ہے۔ ان کھدائیوں کے نتیجے میں نہ صرف صدیوں پرانے اسلامی آثار قدیمہ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس عمل کا مقصد قبلہ اول کی اسلامی شناخت کو مٹانا اور مستقبل میں وہاں یہودی عبادت گاہ قائم کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
 مسجد اقصیٰ کی حیثیت اور تاریخی پس منظر
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور دنیا کی تیسری بڑی مقدس عبادت گاہ ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے۔ صدیوں سے مسلمان اس مقام کو اپنے ایمان اور عقیدے کا مرکز مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ پر کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ یا مداخلت مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت سمجھی جاتی ہے۔
یروشلم 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی مسجد اقصیٰ اور اس کے اردگرد کے علاقے اسرائیلی حکمت عملی کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ متعدد بار یہودی آبادکار اور اسرائیلی حکام مسجد میں داخل ہو کر بے حرمتی کر چکے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام نے ہمیشہ اپنی جانوں کی قربانی دے کر اس مقدس مقام کا دفاع کیا ہے۔
 حالیہ کھدائی اور ویڈیوز کا انکشاف
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بعض مقامات پر بڑے پتھر توڑے جا رہے ہیں اور زیر زمین کھدائی کی جا رہی ہے۔ یہ کھدائیاں مسجد کے صحن اور کمپاؤنڈ کے مختلف حصوں میں ہو رہی ہیں۔ فلسطینی حکام نے مؤقف اپنایا ہے کہ یہ کھدائیاں محض آثار قدیمہ کے نام پر نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سازش ہیں تاکہ اسلامی ورثے کو نقصان پہنچا کر اس کی جگہ نئی مذہبی و سیاسی تعبیر پیش کی جا سکے۔
یہ معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ یہ اسلامی آثار صرف مذہبی اہمیت ہی نہیں رکھتے بلکہ یہ تاریخی شواہد ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں کی اس مقام پر موجودگی اور حق ملکیت کو ثابت کرتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر ان نشانیوں کو تباہ کر کے مستقبل کے کسی ممکنہ سیاسی معاہدے میں مسلمانوں کے دعوے کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
 فلسطینی اتھارٹی کا مؤقف
فلسطینی اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی اقدامات بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یروشلم کی حیثیت بین الاقوامی سطح پر متنازع ہے اور یہاں کسی بھی قسم کی یکطرفہ تبدیلی کو عالمی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیل کا اصل مقصد اس مقدس مقام کو یہودی ریاست کے بیانیے کے مطابق ڈھالنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل "مذہبی ورثے کی تبدیلی” کے ذریعے فلسطینیوں کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
 عالمی برادری کی خاموشی
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بارہا اسرائیل کو خبردار کر چکے ہیں کہ یروشلم میں یکطرفہ اقدامات نہ کرے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ عملی طور پر کوئی بڑا اقدام نہیں کیا گیا۔ عالمی برادری کی یہ خاموشی اسرائیل کو مزید جری بناتی ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک نے بیانات تو جاری کیے لیکن عملی سطح پر کوئی جامع حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس وجہ سے فلسطینی عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے مقدسات کی حفاظت کے لیے انہیں اکیلے جدوجہد کرنا ہوگی۔
 ماضی کی مثالیں
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے نیچے یا اس کے اطراف کھدائی کی ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد بار "آثار قدیمہ کی کھوج” کے نام پر مختلف منصوبے شروع کیے گئے جن کا نتیجہ فلسطینی ورثے کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ اسرائیل اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قدیم یہودی ہیکل کی باقیات تلاش کر رہا ہے، لیکن فلسطینی مؤرخین اور ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی منصوبہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی موجودگی کو جھٹلانا اور تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔
 خطے میں کشیدگی کا خطرہ
مسجد اقصیٰ کے معاملے پر پہلے ہی کئی بار فلسطینی انتفاضہ برپا ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ کھدائی اور آثار قدیمہ کی تباہی کا سلسلہ جاری رہا تو ایک نیا اور شدید ترین عوامی ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ نہ صرف یروشلم بلکہ پورے خطے میں کشیدگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
 اسلامی دنیا کا ردعمل
اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جا رہا ہے، لیکن حکومتی سطح پر اقدامات محدود ہیں۔ ترکی، ایران اور بعض عرب ممالک نے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی ہے، تاہم مجموعی طور پر کوئی مشترکہ حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ امت مسلمہ کی یہ کمزوری اسرائیل کے لیے مزید گنجائش پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے منصوبے کو آگے بڑھا سکے۔
 بین الاقوامی قوانین اور اسرائیلی خلاف ورزیاں
بین الاقوامی قانون کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں آبادی کا ڈھانچہ یا مذہبی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ 1949 کے جنیوا کنونشن اور متعدد اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کھلے عام ان قوانین کو توڑ رہا ہے اور دنیا صرف بیانات پر اکتفا کر رہی ہے۔
فلسطینی عوام کی جدوجہد
فلسطینی عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے مقدسات اور زمین کے دفاع میں قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ نوجوان، بزرگ، خواتین سب مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہیں۔ ہر بار جب اسرائیلی آبادکار مسجد میں داخل ہوتے ہیں یا کھدائی کا کوئی نیا منصوبہ سامنے آتا ہے تو فلسطینی عوام بڑی تعداد میں احتجاج کرتے ہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔