انجینیئر محمد علی مرزا جہلم سے گرفتار ، اکیڈمی سیل کر دی گئی 

اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) جہلم کی پولیس نے معروف مذہبی اسکالر اور یوٹیوبر انجینیئر محمد علی مرزا کو "مینٹیننس آف پبلک آرڈر” (تھری ایم پی او) کے تحت گرفتار کر لیا۔

یہ حکم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری کیا گیا، جس کے بعد پولیس نے نہ صرف مرزا کو حراست میں لیا بلکہ ان کی اکیڈمی، جو مشینی محلہ جہلم میں واقع ہے، اسے بھی مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تاکہ وہاں کسی قسم کا اجتماع یا ہنگامہ نہ ہو سکے۔ گرفتاری کے وقت پولیس نے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے اور مرزا کو فوری طور پر جیل منتقل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس کارروائی کی بڑی وجہ مختلف مذہبی جماعتوں اور علما کا دباؤ تھا، جنہوں نے ان کے خلاف مسلسل احتجاج اور شکایات درج کرائی تھیں۔محمد علی 1977 کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا سے میکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور حکومت پنجاب کے محکمے میں بطور انجینئر ملازمت کی۔ تاہم، مذہبی موضوعات پر کھل کر رائے دینے اور ویڈیو لیکچرز اپلوڈ کرنے کی وجہ سے وہ سرکاری ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یوٹیوب پر انہوں نے "انجینیئر محمد علی مرزا – آفیشل چینل” کے نام سے اپنا پلیٹ فارم بنایا، جہاں وہ دینی موضوعات پر تحقیق، تقابلی مطالعہ اور علما کی آرا پر تنقید پیش کرتے رہے۔ ان کے لاکھوں فالوورز اور سبسکرائبرز ہیں، جو ان کے اندازِ گفتگو اور دلائل سے متاثر ہو کر ان کے حامی بنے، لیکن ساتھ ہی ان کے مخالفین بھی بہت بڑھے۔
ان کے فکری سفر پر مختلف علما اور مفکرین کا اثر رہا ہے جن میں ابو الاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، جاوید احمد غامدی، طارق جمیل، ذاکر نائیک اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم، ان کا انداز اکثر روایتی علما کے لیے ناگوار گزرتا ہے کیونکہ وہ تاریخِ اسلام، صحابہ کرامؓ اور بعد کی مذہبی شخصیات پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ مولانا طارق مسعود کے ساتھ ان کا مشہور اختلاف اسی تناظر میں سامنے آیا، جہاں موآویہؓ کے مقام پر دونوں میں شدید اختلاف ہوا۔ اسی طرح بریلوی عالم مفتی حنیف قریشی کے ساتھ ان کا ایک مباحثہ طے ہوا، لیکن حالات کے باعث یہ مکمل نہ ہو سکا اور تنازعے کی صورت اختیار کر گیا۔ یہی واقعات ان کی متنازعہ شخصیت کی بڑی مثالیں ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں کہ محمد علی مرزا گرفتار ہوئے ہوں۔ اس سے قبل 2020 میں بھی انہیں ایک ویڈیو لیکچر کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مذہبی نفرت انگیزی پھیلائی ہے اور سیکشن 153-A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تاہم، اگلے ہی روز عدالت نے یہ مؤقف اپنایا کہ ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے، اور انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد بھی ان پر مختلف الزامات لگتے رہے ہیں۔ April 2023 میں ان کے خلاف توہینِ مذہب یعنی سیکشن 295-C کے تحت مقدمہ درج ہوا، جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، احمدیوں اور صوفی بزرگوں کے حوالے سے ان کے بیانات کو متنازع قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ تحریک لبیک پاکستان کے ایک رہنما نے ان کے قتل پر انعام بھی مقرر کر دیا تھا۔
2022 میں انہوں نے نپُر شرما کی ہندو دیویوں کے بارے میں دیے گئے ریمارکس کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دیا جس میں انہوں نے بعض حوالوں سے اس کی حمایت کی، جس پر کئی حلقوں نے ان پر سخت تنقید کی جبکہ کچھ نے اسے علمی دیانت داری قرار دیا۔ ان کے ایسے بیانات بار بار عوامی حلقوں میں بحث کا باعث بنتے رہے ہیں، اور یہی ان کی شہرت اور مخالفت کا بنیادی سبب ہے۔
ان کی حالیہ گرفتاری کو بھی اسی تسلسل کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق مختلف مذہبی جماعتوں اور علما نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقاتیں کیں اور شکایات پیش کیں، جس کے بعد انتظامیہ نے انہیں حراست میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ باضابطہ طور پر الزام یہی لگایا گیا ہے کہ ان کی موجودگی سے امن و امان خراب ہونے کا خدشہ تھا، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دراصل عوامی دباؤ اور مذہبی سیاست کا نتیجہ ہے۔ گرفتاری کے ساتھ ساتھ ان کی اکیڈمی کو سیل کر دینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکام چاہتے ہیں کہ ان کے پیروکار کسی قسم کا احتجاج یا اجتماع نہ کر سکیں۔
مستقبل میں ان کی قانونی ٹیم عدالت سے رجوع کر کے ان کی رہائی یا ضمانت کے لیے کوشش کرے گی۔ دوسری جانب، عوامی سطح پر سوشل میڈیا پر ان کے حامی اور مخالف دونوں سرگرم ہیں۔ کچھ لوگ اسے علما کے دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اس اقدام کو امن و امان کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ بہرحال، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ محمد علی مرزا کا معاملہ محض ایک فرد کی گرفتاری نہیں بلکہ مذہب، قانون اور اظہارِ رائے کی آزادی کے درمیان ایک بڑے سوال کی حیثیت رکھتا

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔