حکومت نے اپنے مجوزہ وفاقی بجٹ برائے 2012-13 میں تنخواہ دار طبقے کو دی گئی ٹیکس ریلیف واپس لینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حال ہی میں پیش کیے گئے بجٹ میں حکومت نے غیر متوقع طور پر زیادہ تنخواہ لینے والے افراد کو ٹیکس کی شرح میں بڑا ریلیف دیا تھا اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 35 فیصد سے کم کرکے 32.5 فیصد کردی تھی۔ تھا
اس کے علاوہ مجوزہ بجٹ میں ٹیکس سلیب کی تعداد 12 سے کم کر کے 7 کر دی گئی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق نظرثانی شدہ ٹیکس سلیب اور دیگر تجاویز انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو جمع کرادی گئی ہیں۔
اہلکار نے کہا کہ تکنیکی سطح پر بات چیت اگلے چند دنوں میں شروع ہو جائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ وہ تنخواہ دار طبقے کو نچلے سلیب میں آنے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔
اسلام آباد میں فنڈ کے نمائندے نے بھی تصدیق کی کہ وہ "کچھ محصولات اور اخراجات کے بارے میں مزید وضاحت طلب کرنے کے لیے حکام سے بات چیت کر رہا ہے”۔
ایک تحریری سوال کے جواب میں آئی ایم ایف کی رہائشی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے کہا کہ ہم نے گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ کا مسودہ دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق بجٹ کو مضبوط بنانے اور اسے اہم پروگرام کے مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
آئی ایم کے نمائندے نے کہا کہ "فنڈ کا عملہ اس سلسلے میں حکام کی کوششوں اور عمومی طور پر میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دینے کے لیے پالیسیوں کے نفاذ میں تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔”
سینیٹ کمیٹی نے بجٹ تجاویز پر غور کیا۔
دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا جس میں مالی سال 2013-14 کے بجٹ کے ٹیکس اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ریستوران کی خدمات اور سامان کی فراہمی پر الگ سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے کہا کہ ریسٹورنٹ سروسز صوبائی معاملہ ہے اور مرکز اور صوبوں کے درمیان سامان کی فراہمی کا مسئلہ تھا تاہم اب یہ معاملہ طے پا گیا ہے۔
اجلاس میں سگریٹ اور بین الاقوامی بزنس کلاس ایئر ٹکٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے علاوہ ٹیلی کام سروسز پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز کی بھی منظوری دی گئی۔
سینیٹر فاروق نائیک نے زیورات کی درآمد پر 4 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے اور پوچھا کہ ایسا ٹیکس کس قانون کے تحت لگایا گیا ہے۔
کمیٹی نے الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں 12.5 سے 17 فیصد اضافے کو بھی مسترد کردیا جب کہ سینیٹر فاروق نائیک نے چھوٹی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے استثنیٰ کی تجویز پیش کی۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے درآمدی سامان پر پابندی سے تعمیراتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں چھ بڑے ہوٹلوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور پابندی نہیں اٹھائی گئی۔ اس لیے یہ منصوبہ متاثر ہو سکتا ہے۔