اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے حماس، اسرائیل اور ثالث ممالک کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا ہے۔
مذاکرات کا اگلا مرحلہ آج مصر کے شہر شرم الشیخ میں دوبارہ شروع ہوگا۔ذرائع کے مطابق شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ نے کی، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی بات چیت میں شریک ہوئے۔
مذاکرات میں قطر اور مصر کے نمائندے بطور ثالث شامل تھے، اور یہ بات چیت رات گئے تک جاری رہی۔ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق، حماس نے مذاکرات میں اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل کے غزہ سے انخلا کے وقت اور طریقہ کارسے متعلق اپنا موقف پیش کیا۔
حماس کی شرائط
عرب میڈیا کے مطابق، حماس نے مذاکرات کے دوران چھ معروف فلسطینی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی غزہ کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی کی بھی شرط رکھی۔حماس نے یہ بھی کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی پابندی کی ضمانت دی جائے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں صرف یرغمالیوں کی رہائی پر توجہ دی جائے گی، اور حماس کو اس حوالے سے چند دن دئیے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق اسرائیل فی الحال اپنے فوجی "ٹرمپ پلان” کے تحت نام نہاد یلو لائن (Yellow Line) تک ہی محدود رکھے گا اور وہاں ایک اسٹریٹجک بفر زون قائم کرے گا، جبکہ مزید انخلا حالات کے مطابق بعد میں طے کیا جائے گا۔
امریکی مؤقف
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرو لائن لیوٹ نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی جلد از جلد ہو تاکہ مذاکرات کا اگلا مرحلہ شروع کیا جا سکے۔ان کے مطابق فریقین کے درمیان یرغمالیوں اور سیاسی قیدیوں کی فہرستوں پر بات چیت جاری ہے تاکہ رہائی کے لیے سازگار ماحول بنایا جا سکے۔
دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات کاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ غزہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے پیش رفت کریں۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز انتباہ کیا تھا کہ اگر حماس نے غزہ پر کنٹرول چھوڑنے سے انکار کیا تو اسے "مکمل طور پر تباہ” کر دیا جائے گا۔شرم الشیخ مذاکرات کا پہلا دور اگرچہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا، تاہم حماس کی جانب سے اہم نکات پر نرمی اور قیدیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کے تبادلے کی بات، جنگ بندی کے لیے ایک مثبت پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔دوسری جانب، اسرائیلی تحفظات اور امریکی دباؤ اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔