عالمی حالات، بیرونی ادائیگیوں پر دباؤ، ملکی سیاسی صورتحال اور زرمبادلہ کی کمی سال کے دوران روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات رہی۔آئی ایم ایف کی اس ضرورت کے علاوہ کہ زر مبادلہ کی شرح کا تعین مارکیٹ سے کیا جائے، حکومت نے زرمبادلہ کو بچانے کے لیے درآمدات کو کنٹرول کیا اور دستاویزی ثبوت کے ساتھ اوپن مارکیٹ میں $500 کی خریداری کی۔لیکن ان کوششوں کے باوجود ڈالر جو سال کے شروع میں 226 روپے تھا جون تک 286 روپے کا ہو گیا۔ کنٹرول کی وجہ سے الگ سے گرے مارکیٹ قائم ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں
روپے کی اڑان کا سلسلہ ٹوٹ گیا ،ڈالر کی قیمت میں اضافہ
جہاں ڈالر ڈومیسٹک انٹربینک اور اوپن مارکیٹ سے مہنگا تھا اور اس سے سرکاری مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت متاثر ہورہی تھی۔نگراں حکومت کے آنے کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 307 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 328 روپے تک پہنچ گیا تاہم پھر حکومت اور حکومتی اداروں کی انتظامی کوششوں سے روپے کی گرتی ہوئی قدر بحال ہوئی۔
سرحد پر کرنسی کی اسمگلنگ روک دی گئی، غیر قانونی کاروبار کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی، بی ایکسچینج کمپنیاں ختم کر دی گئیں۔ان اقدامات کی وجہ سے روپیہ مستحکم ہوا۔سال کا اختتام انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں 281 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 283 روپے پر ہوا۔
مزید پڑھیں
ڈالر کی قیمت ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی ،قرضوں میں بے تحاشا اضافہ
اگرچہ اختتامی قیمت سال کی بلند ترین شرح مبادلہ سے کم ہے لیکن ایک سال میں ڈالر 55 روپے بڑھ کر 281 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سال کے دوران ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔سال کے دوران روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی 10 سالہ اوسط 8 فیصد اور 5 سالہ اوسط 13 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔