اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) دنیا بھر میں کھیلوں کے میدان اکثر ایسے کھلاڑی پیدا کرتے ہیں جو نہ صرف اپنی فتوحات کے ذریعے بلکہ اپنی شخصیت، مارکیٹنگ کی صلاحیت اور اسپانسر شپ ڈیلز کے سبب بھی شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ ٹینس اسٹار ایما راڈوکانو (Emma Raducanu) اس کی ایک شاندار مثال ہیں۔ ایما نے چند ہی برسوں میں اس سفر کو طے کیا ہے جو عام کھلاڑیوں کو کئی دہائیوں میں بھی نصیب نہیں ہوتا۔ایما راڈوکانو 2002 میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد رومانیہ سے اور والدہ چین سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد ازاں ان کا خاندان برطانیہ منتقل ہوگیا جہاں انہوں نے بچپن ہی سے ٹینس کھیلنا شروع کیا۔ ابتدائی عمر میں ہی ان کی فٹنس، رفتار اور کھیل کے تیز انداز نے کوچز کو متاثر کیا اور جلد ہی یہ طے ہوگیا کہ وہ کسی بڑے ٹیلنٹ کے طور پر سامنے آئیں گی۔
2021 : قسمت بدلنے والا لمحہ
ایما کے کیریئر کا سب سے اہم موڑ 2021 میں آیا جب انہوں نے محض 18 سال کی عمر میں یو ایس اوپن (US Open) کا ٹائٹل جیت کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ ان کی پہلی گرینڈ سلیم جیت تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کوالیفائنگ راؤنڈ سے آ کر یہ ٹائٹل جیتنے والی تاریخ کی پہلی خاتون کھلاڑی بنیں۔ اس فتح نے نہ صرف انہیں راتوں رات عالمی شہرت دی بلکہ اسپانسر شپ کے دروازے بھی کھول دیے۔
: 44 پاؤنڈ سے اربوں تک کیسے پہنچی
ایما نے خود کئی بار کہا کہ ان کے اکاؤنٹ میں پانچ سال پہلے محض 44 پاؤنڈ موجود تھے، لیکن آج وہ **13.5 ملین پاؤنڈ** (تقریباً 5 ارب پاکستانی روپے) کی مالیت کی مالک ہیں۔ یہ ترقی محض کھیل کے میدان میں ان کی کامیابی کی وجہ سے نہیں بلکہ برانڈز کے اعتماد کا نتیجہ بھی ہے۔ کھیلوں کے انعامی مقابلوں سے ملنے والی رقم کے ساتھ ساتھ مشہور کمپنیوں کے ساتھ ان کی اسپانسر شپ ڈیلز نے ان کی زندگی بدل دی۔
اسپانسر شپ اور برانڈ ایمبیسیڈرشپ
یو ایس اوپن کی جیت کے بعد ایما کی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ دنیا کے بڑے بڑے برانڈز ان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے خواہشمند ہو گئے۔ ایما آج کئی عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں جیسے نائکی، ٹیفنی اینڈ کو، ڈائر، پورشے، اور بی ٹی ایسپورٹ کی برانڈ ایمبیسیڈر ہیں۔ یہ ڈیلز لاکھوں ڈالرز کی ہیں اور ان کی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ انہی سے آتا ہے۔
رینکنگ اور کھیل کی کارکردگی
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایما نے 2021 کے بعد سے کوئی بڑا ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل نہیں جیتا۔ ان کی عالمی رینکنگ اس وقت 39ویں نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ان کی مارکیٹنگ ویلیو اور کورٹ پر موجودگی اب بھی بے پناہ اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے ٹورنامنٹس میں جب وہ کھیلنے آتی ہیں تو ناظرین کی بڑی تعداد انہیں دیکھنے کے لیے آتی ہے، اور یہ ان کے مقبول ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
میڈیا اور عوامی تاثر
ایما کی کامیابی نے برطانیہ میں ٹینس کو دوبارہ عروج دیا ہے۔ وہ میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں، اور ان کا ہر انٹرویو، اشتہار یا سوشل میڈیا پوسٹ خبریں بن جاتی ہیں۔ اگرچہ بعض نقاد یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کھیل میں بڑی کامیابیوں کے بغیر صرف ایک فتح کی بنیاد پر انہیں اتنی زیادہ اسپانسر شپ کیوں ملی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مارکیٹنگ کی دنیا میں صرف کھیل کے نتائج ہی اہم نہیں بلکہ کھلاڑی کی شخصیت، میڈیا اپروچ اور عوامی اپیل بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
چیلنجز اور دباؤ
ایما پر دباؤ بھی کم نہیں ہے۔ یو ایس اوپن کی تاریخی فتح کے بعد سے ان سے توقع کی جاتی رہی کہ وہ ایک کے بعد ایک ٹائٹل جیتیں گی۔ لیکن چوٹوں، فٹنس مسائل اور فارم میں اتار چڑھاؤ کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو پایا۔ تاہم اس کے باوجود وہ اب بھی ایک ابھرتی ہوئی ٹینس اسٹار سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا نوجوان ہونا، محنتی ہونا اور عالمی شہرت یافتہ برانڈز کے ساتھ جڑ جانا یہ سب ان کے لیے مستقبل میں بھی کامیابی کی ضمانت ہے۔
راتوں رات ارب پتی بننے کی کہانی
ایما کی کہانی دنیا بھر کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک سبق ہے۔ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے میں انہوں نے ثابت کر دیا کہ محنت، صلاحیت اور ایک بڑا موقع انسان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ محض ایک ٹائٹل نے انہیں عالمی سطح پر مقبول بنا دیا اور انہوں نے اس موقع کو برانڈ ویلیو اور اسپانسر شپ کے ذریعے کیش کرایا۔
برطانیہ اور دنیا میں اثرات
ایما کی کامیابی نے برطانیہ میں کھیلوں کے لیے ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔ نوجوان لڑکیاں انہیں ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھتی ہیں اور کھیل کے میدان میں قدم رکھنے کی خواہش مند ہیں۔ ان کی شہرت نے یہ بھی ثابت کیا کہ کھیل صرف کورٹ یا میدان تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ایک عالمی صنعت ہے جس میں کھلاڑی ایک برانڈ کے طور پر ابھرتے ہیں۔
مستقبل کی توقعات
ایما اب بھی نوجوان ہیں اور ان کے پاس ٹینس میں کئی برس باقی ہیں۔ اگر وہ اپنی فٹنس اور کھیل پر توجہ مرکوز رکھیں تو آئندہ برسوں میں مزید ٹائٹل جیت سکتی ہیں۔ ان کے شائقین کو اب بھی امید ہے کہ وہ نہ صرف دوبارہ گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتیں گی بلکہ عالمی رینکنگ میں ٹاپ 10 میں بھی شامل ہوں گی۔