9
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) غزہ ایک بار پھر لہو میں نہایا ہوا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 52 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
شہدا میں وہ 7 نہتے فلسطینی بھی شامل ہیں جو امداد کے منتظر تھے اور کسی انسانی ہمدردی یا ریلیف کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اس طرح مجموعی طور پر شہدا کی تعداد 64 ہزار 605 تک جا پہنچی ہے جبکہ 1 لاکھ 63 ہزار 319 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار کسی عام تنازع یا چھوٹے پیمانے کی لڑائی کی عکاسی نہیں کرتے، بلکہ ایک ایسے المیے کا نقشہ پیش کرتے ہیں جو نسل کشی (Genocide) کی واضح علامت ہے۔ ہر دن اور ہر لمحہ غزہ کے باسیوں پر قیامت ڈھائی جا رہی ہے۔اسرائیلی فورسز نے ایک بار پھر اپنی جارحانہ روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ سٹی کی بلند عمارت **’السلام ٹاور‘** کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔
یہ عمارت نہ صرف رہائشی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی بلکہ اس میں دفاتر، چھوٹی دکانیں اور فلاحی تنظیموں کے مراکز بھی قائم تھے۔ اس کے انہدام کے ساتھ درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے، اور سیکڑوں لوگ اپنے روزگار کے ذرائع سے محروم ہو گئے۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ غزہ کے عوام فوری طور پر علاقے کو چھوڑ دیں، ورنہ اسرائیلی فوج غزہ کی تمام بلند عمارتوں کو زمیں بوس کر دے گی۔ نیتن یاہو نے مزید عندیہ دیا ہے کہ غزہ میں فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی آپریشن** کو بھی مزید وسعت دی جائے گی۔غزہ کی صورتحال پہلے ہی دل دہلا دینے والی ہے، لیکن مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فورسز کے مظالم جاری ہیں۔ تازہ ترین کارروائی میں سرچ آپریشن کی آڑ میں دو فلسطینی بچے شہید کر دیے گئے۔ یہ عمل واضح طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیونکہ بچوں کو نشانہ بنانا نہ صرف غیر انسانی فعل ہے بلکہ عالمی قوانین کے بھی خلاف ہے۔غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی حملوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو مفلوج کر دیا ہے۔
ہسپتال ملبے کا ڈھیر
صحت کے مراکز تباہ ہو گئے ہیں، زخمیوں کا علاج ممکن نہیں۔
ادویات کی شدید کمی
طبی سہولتوں کی کمیابی کے باعث ہزاروں زخمی تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔
خوراک کا بحران :
اسرائیل نے محاصرہ سخت کر دیا ہے، جس کے باعث روٹی اور پانی جیسی بنیادی ضرورتیں نایاب ہو گئی ہیں۔
بجلی اور مواصلات معطل
شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، دنیا سے رابطہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
عالمی برادری کی خاموشی اور دوہرا معیار
فلسطینی عوام مسلسل مدد کے لیے عالمی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں، مگر بڑی طاقتیں اور بین الاقوامی ادارے اب تک مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ مغربی دنیا کا دوہرا معیار کھل کر سامنے آ چکا ہے، جہاں انسانی حقوق کی بات صرف مخصوص ممالک یا خطوں تک محدود کر دی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں محض کاغذی کارروائی ہیں، جبکہ یورپی یونین اور امریکہ کی پالیسی اسرائیل کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں، مگر فیصلہ کن اقدامات کا فقدان ہے۔
شدید مظالم کے باوجود فلسطینی عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ غزہ کے باسی مسلسل دنیا سے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں اور اپنی زمین پر ڈٹے رہنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل مزاحمت کے جذبے سے سرشار ہے، جبکہ خواتین اور بچے بھی اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں شامل ہیں۔