اردو ورلڈ کینیڈا ویب ( ویب نیوز ) برطانیہ میں ایک خفیہ عدالتی حکم (superinjunction) کے خاتمے کے بعد یہ حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے کہ سابق کنزرویٹو حکومت نے ہزاروں افغان شہریوں کو خفیہ طور پر برطانیہ لانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
یہ افغان افراد وہ تھے جنہوں نے افغانستان میں برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا تھا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی جان کو خطرات لاحق تھے۔وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ یہ منصوبہ نہ صرف عوام اور میڈیا سے خفیہ رکھا گیا بلکہ پارلیمنٹ کی نظروں سے بھی اوجھل رکھا گیا، جس سے جمہوری نگرانی کا عمل متاثر ہوا۔ اسپیکر ہاؤس آف کامنز سر لینڈسے ہوئل نے بھی اس اقدام کو ’’آئینی بحران‘‘ قرار دیا۔
رپورٹس کے مطابق 2022 میں وزارت دفاع کے ایک اہلکار کی غلطی سے تقریباً 19 ہزار افغان باشندوں کی ذاتی معلومات پر مشتمل اسپریڈشیٹ لیک ہو گئی تھی۔ یہ افراد برطانیہ منتقلی کے امیدوار تھے اور برطانوی حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے ایک خفیہ بحالی پروگرام شروع کیا، جس کے تحت اب تک 900 افراد اور ان کے 3,600 اہلِ خانہ کو برطانیہ منتقل کیا جا چکا ہے یا منتقلی کے عمل میں ہیں۔
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی کا کہنا ہے کہ معلومات کا افشاء طالبان کے افغانستان پر قبضے کے چھ ماہ بعد، فروری 2022 میں ہوا۔ اس کے بعد سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر یہ خفیہ پروگرام تشکیل دیا گیا تھا۔
وزیراعظم اسٹارمر نے عزم ظاہر کیا کہ ان تمام افغان شہریوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے گا جو برطانوی افواج کے ساتھ مل کر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کو ایک ایسا نظام وراثت میں ملا ہے جو خفیہ عدالتی احکامات، بڑے پیمانے پر ڈیٹا لیکس اور اربوں پاؤنڈ کے غیر شفاف اخراجات پر مشتمل ہے۔