57
اردو ورلڈ کینیڈا (ویب نیوز) خطے میں پانی کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ چین نے تبت کے علاقے میں دریائے یارلنگ سانپو (جسے بھارت میں برہم پترا کہا جاتا ہے) پر ایک عظیم الشان ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے۔
اس منصوبے کو بعض تجزیہ کار "پانی کا ایٹم بم” قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس کے ممکنہ اثرات نہ صرف بھارت بلکہ بنگلہ دیش تک پھیل سکتے ہیں۔چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے حالیہ دنوں میں تبت میں واقع یارلنگ سانپو پر مجوزہ ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس منصوبے پر اندازاً 168 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی، اور اسے دنیا کی سب سے بڑی پن بجلی پیدا کرنے والی سہولت قرار دیا جا رہا ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق، یہ ڈیم سالانہ 300 بلین کلو واٹ گھنٹے** بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھے گا، جو چین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس منصوبے کا اعلان چین نے اپنے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کے تحت 2020 میں کیا تھا، اور اسے دسمبر 2024 میں باضابطہ منظوری دی گئی۔یارلنگ سانپو دریا، تبت سے نکل کر بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں (خصوصاً اروناچل پردیش اور آسام) سے گزرتا ہوا بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں کے لیے یہ دریا زرعی، صنعتی اور گھریلو ضروریات کے لیے ایک اہم آبی ذریعہ ہے۔چین کی جانب سے اس دریا پر ڈیم کی تعمیر پر بھارت کو شدید تحفظات ہیں۔ بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین پانی کو بطور "اسٹریٹجک ہتھیار” استعمال کر سکتا ہے، جس سے نہ صرف پانی کی قلت بلکہ سیلاب، ماحولیاتی تباہی اور انسانی ہجرت جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ڈیم کی تعمیر سے دریائے برہم پترا کے بہاؤ میں تبدیلی آئے گی، جو کہ نیچے کے علاقوں میں پانی کی قلت یا سیلاب کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارت کی دو ریاستوں اور بنگلہ دیش کے کئی علاقے متاثر ہو سکتے ہیں، جہاں لاکھوں افراد کا انحصار اسی دریا پر ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے مقامی حیاتیاتی تنوع، مچھلیوں کی نسلیں، اور زراعت بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں ان علاقوں کی آبادی کو ممکنہ طور پر نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑے گا، جس سے معاشی و سماجی بحران جنم لے سکتا ہے۔چین کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کی معطلی اور دریاؤں پر یکطرفہ اقدامات نے جنوبی ایشیا میں سفارتی تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔ بھارت، جو پہلے ہی چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کا شکار ہے، اب پانی کے مسئلے پر ایک نئے محاذ کے لیے تیار ہو رہا ہے۔بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ماحولیاتی گروپس بھی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ خطے کے آبی وسائل کو بین الاقوامی قوانین کے تحت مشترکہ طور پر منظم کیا جائے تاکہ کسی ایک ملک کو مکمل کنٹرول حاصل نہ ہو۔