اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکہ نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے ایک بار پھر علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف جانبداری برتتا ہے اور دنیا بھر میں ایک "تقسیم پیدا کرنے والا” سماجی و ثقافتی ایجنڈا فروغ دے رہا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیـمی بروس (Tammy Bruce) نے ایک بیان میں کہا کہ یونیسکو میں شامل رہنا "امریکہ کے قومی مفاد میں نہیں ہے”۔ یہ فیصلہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور حکومت میں امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی۔اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، امریکہ نے ایک مرتبہ پھر یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے، جو کہ دسمبر 2026 سے مؤثر ہوگا۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل، آڈری آزولے (Audrey Azoulay) نے امریکہ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کثیرالاقوامیت کے اصولوں کے منافی ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس فیصلے کی توقع تھی اور ادارہ اس کے لیے پہلے سے تیار تھا۔یونیسکو کے مطابق، امریکہ کی رکنیت ختم ہونے سے ادارے کی مالی حالت پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ گزشتہ دہائی کے دوران امریکی مالی تعاون 20 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد رہ گیا ہے۔امریکہ نے یونیسکو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل کے خلاف بیانیہ کو فروغ دیتا ہے۔ خاص طور پر، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں واقع فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔اسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جبکہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے یونیسکو کے لیے اپنی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ اس سے قبل بھی 1980 کی دہائی میں ریگن انتظامیہ کے تحت یونیسکو سے علیحدہ ہو چکا ہے، اور بعد ازاں صدر جارج بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔