اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)امریکہ نے کینیڈا سے درآمد کی جانے والی نرم لکڑی پر 20.56 فیصد اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کر دی ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے جاری تجارتی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت کے مطابق یہ فیصلہ 2023 میں کی گئی درآمدات کے سالانہ جائزے کے بعد کیا گیا ہے، جس کا مقصد امریکی لکڑی کی صنعت کو غیر منصفانہ مقابلے سے بچانا ہے۔یہ نئی شرح مارچ میں جاری کی گئی 20.07 فیصد عبوری شرح سے زیادہ ہے اور 2022 میں لاگو کی گئی 7.66 فیصد ڈیوٹی کے مقابلے میں تقریباً تین گنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کینیڈا کی نرم لکڑی پر کاؤنٹر ویلننگ ڈیوٹی بھی عائد ہے، جو تقریباً 6.74 فیصد ہے۔ یوں مجموعی طور پر ڈیوٹی کی شرح 30 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے۔امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ کینیڈین کمپنیاں اپنی لکڑی کم قیمت پر امریکی منڈیوں میں فروخت کر رہی ہیں، جو کہ ڈمپنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کے مطابق اس عمل سے امریکی مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں امریکی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔
امریکی لکڑی کی صنعت کے نمائندوں نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام مقامی کاروبار کے تحفظ کے لیے ناگزیر تھا۔ادھر کینیڈا میں اس فیصلے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ برٹش کولمبیا، جو کہ کینیڈا کی نرم لکڑی کی سب سے بڑی پیداوار کا مرکز ہے، وہاں کے صنعت کاروں نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ، یک طرفہ اور سیاسی قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیوٹیاں ہزاروں کینیڈین خاندانوں کی روزی روٹی پر ضرب کے مترادف ہیں اور اس سے دونوں ممالک کے دیرینہ تجارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔کینیڈین حکام نے امریکی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) اور دیگر قانونی فورمز پر اس کے خلاف چیلنج دائر کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی لکڑی کی برآمدات ہمیشہ شفاف، معیاری اور عالمی قوانین کے مطابق رہی ہیں، اور یہ امریکی الزام بے بنیاد ہے۔کینیڈین حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی لکڑی کی صنعت کا ہر ممکن تحفظ کرے گی اور متاثرہ کمپنیوں کو ہر ممکن قانونی و سفارتی مدد فراہم کی جائے گی۔تجارتی ماہرین کے مطابق اگر یہ تنازعہ جلد حل نہ ہوا تو اس کے اثرات نہ صرف لکڑی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوں گے بلکہ دونوں ممالک کے دیگر شعبہ جات میں بھی تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔