اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)البرٹا کی پریمیئرڈینیئل اسمتھ کا امریکی محصولات کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ قدم نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ دو طرفہ تعلقات کے لیے خطرناک بھی ہے ڈینیئل اسمتھ نے امریکہ کی جانب سے کینیڈین مصنوعات پر 35 فیصد درآمدی محصولات عائد کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے اس فیصلے کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف البرٹا ہی نہیں بلکہ پورے کینیڈا کے کاروباروں، کسانوں اور مزدوروں کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔
ان کے مطابق امریکی حکومت نے یہ محصولات ان اشیاء پر لگائے ہیں جو شمالی امریکی تجارتی معاہدے کے دائرے میں نہیں آتیں۔ خوش قسمتی سے، تیل، قدرتی گیس، زرعی اجناس اور کچھ بنیادی اشیاء اب بھی اس معاہدے کے تحت امریکہ برآمد کی جا سکتی ہیں اور ان پر یہ محصولات لاگو نہیں ہوں گے۔
تاہم باقی بہت سی مصنوعات، جن پر اب 35 فیصد ٹیکس لاگو کیا گیا ہے، برآمدکنندگان کے لیے اقتصادی نقصان اور غیر یقینی صورتحال کا سبب بنیں گی۔ڈینیئل اسمتھ کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ مشترکہ سکیورٹی، دفاعی اور تجارتی اتحاد کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں:”یہ محصولات کینیڈا اور امریکہ دونوں کے کاروباروں اور محنت کشوں کو نقصان پہنچائیں گے، اور دنیا کے دو قریبی اتحادیوں کے مابین اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں گے۔
"انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کینیڈا کی برآمدی حکمتِ عملی کو وسیع کرے، تاکہ ملک کی معیشت صرف ایک یا دو تجارتی شراکت داروں پر انحصار نہ کرے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کینیڈا کے اندرونی تجارتی نظام میں موجود رکاوٹوں کو ختم کیا جانا چاہیے تاکہ تمام صوبے ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ تجارت کر سکیں ۔
ڈینیئل اسمتھ نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر امریکی حکومت کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کرے تاکہ اس فیصلے پر نظرِثانی کروائی جا سکے ان کے مطابق اگر اس وقت بروقت اور مؤثر سفارتی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے، جس سے کینیڈا کی معیشت کو طویل المدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔