اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی حکومتی وزراء کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں داخلے اور یہودی عبادات کے انعقاد کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، اور اسے "انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر حملہ قرار دیا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر، اتمار بن گویر، دیگر وزراء، پولیس اہلکاروں اور صیہونی آبادکاروں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے اور وہاں یہودی دعائیہ تقریب منعقد کی۔ یہ اقدام ایک طے شدہ تاریخی معاہدے کی صریح خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے، جس کے تحت اس مقام پر یہودی مذہبی رسومات کی ادائیگی ممنوع ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے 4 اگست کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر اپنے بیان میں کہا کہ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی اس طرح بے حرمتی دنیا بھر کے مسلمانوں کے عقائد کی توہین کے مترادف ہے، اور یہ اقدام نہ صرف مذہبی حساسیت بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی ضمیر کی پامالی بھی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے اس نوعیت کی منظم اشتعال انگیزیوں سے امن کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں، اور یہ خطے کو مزید کشیدگی اور عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔
وزیراعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے تحت غزہ میں فوری جنگ بندی کو یقینی بنائے، جارحیت کا خاتمہ کرے اور ایک قابل اعتماد امن عمل کے آغاز میں اپنا کردار ادا کرے۔
ادھر سعودی عرب نے بھی اسرائیلی حکام کی بار بار کی اشتعال انگیز کارروائیوں پر شدید ردعمل دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات خطے کو مزید تنازعات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے، جبکہ یہودی عقیدے کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے قدیم ہیکل واقع تھے۔ اسرائیل اور اردن کے درمیان ایک معاہدے کے مطابق اس مقام پر یہودیوں کی عبادات ممنوع قرار دی گئی تھیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس معاہدے کی متعدد خلاف ورزیاں دیکھی گئی ہیں، اور اتمار بن گویر کا حالیہ اقدام پہلا موقع ہے جب کسی اسرائیلی وزیر نے عوامی طور پر وہاں مذہبی رسومات ادا کیں۔
اگرچہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ (جسے اسرائیل "ٹیمپل ماؤنٹ” کہتا ہے) کے حوالے سے موجودہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، تاہم بن گویر کے حالیہ بیانات میں انہوں نے نہ صرف اس مقام پر اسرائیلی کنٹرول کو واضح کیا بلکہ پورے غزہ پر بھی اسی طرز کی خودمختاری نافذ کرنے کی بات کی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا، جسے عالمی برادری کی بڑی اکثریت اب تک تسلیم نہیں کرتی۔