اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے اور جارحانہ تجارتی ٹیرف کے نافذ العمل ہونے کے بعد دنیا بھر کی معیشتوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
عالمی تجارتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے جبکہ امریکی کسٹمز نے رات 12 بجے کے بعد سے نئی درآمدات پر 10 سے 50 فیصد** کے درمیان محصولات کی وصولی شروع کر دی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نافذ کیے گئے یہ نئے ٹیرف گزشتہ 100 برسوں میں بلند ترین سطح پر ہیں ۔ اس کا اثر صرف امریکا اور اس کے تجارتی شراکت داروں پر ہی نہیں بلکہ عالمی سپلائی چین، بین الاقوامی قیمتوں اور سرمایہ کاری کے رجحانات پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔
مریکی کسٹمز نے 8 اگست سے درآمدات پر 10 سے 50 فیصدکے درمیان نئے ٹیرف لاگو کر دیے، اہم ترین صنعتی اور ٹیکنالوجی مصنوعات متاثر، امریکی کمپنیاں بھی اس فیصلے سے دباؤ میں آ گئیں، ■ بھارت اور روسی تیل 25 فیصد اضافی ٹیرف، مجموعی شرح 50 فیصد تک جا پہنچی
نئے ٹیرف سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری پر سخت ردعمل دیتے ہوئے 6 اگست کو مزید 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، جس کے بعد بھارت پر مجموعی ٹیرف کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی۔یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھارت اور برازیل جیسے ممالک امریکا سے ٹیرف میں نرمی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور برازیلی صدر لولا ڈا سلوا نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے معاشی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کے اس مؤقف کے بعد واشنگٹن نے مزید سختی کرتے ہوئے ٹیرف کی شرح میں اضافہ کر دیا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان اور ویتنام ان چند ممالک میں شامل ہیں جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے ٹیرف میں جزوی رعایت دی ہے۔ ان ممالک کے ساتھ کچھ مخصوص مصنوعات پر نرم شرائط کے تحت تجارت جاری رکھی جائے گی، تاکہ امریکا کو ایشیائی مارکیٹ تک رسائی حاصل رہے۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع اور جارحانہ اقدام پر یورپی یونین، چین، کینیڈا، جاپان سمیت کئی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کئی ممالک جو WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کے تحت آزاد تجارت کے حامی ہیں، اس فیصلے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے ہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا ایک مرتبہ پھر "پہلے امریکہ” کی پالیسی پر واپس آتا نظر آ رہا ہے، جس کے تحت بین الاقوامی معاہدوں اور تجارتی ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف داخلی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ پالیسیاں بالآخر **خود امریکی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں ۔