اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) کھیل ہمیشہ مقابلے، جیت اور ہار کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار کھیل کے میدان میں ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو صرف کھیل کی تاریخ ہی نہیں بلکہ انسانیت کی تاریخ میں بھی یادگار بن جاتے ہیں۔
ٹوکیو اولمپکس کے دوران ایسا ہی ایک ناقابلِ یقین لمحہ سامنے آیا جب ایک ایتھلیٹ نے دوڑ جیتنے کے باوجود اپنا سونے کا تمغہ اپنے زخمی حریف کو دے دیا۔ یہ لمحہ دنیا بھر میں کھیلوں کی تاریخ کا سب سے انوکھا اور انسانی ہمدردی سے بھرپور لمحہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ مقابلہ 1500 میٹر کی دوڑ کا تھا۔ اس دوڑ میں دنیا کے کئی بہترین ایتھلیٹس شریک تھے۔ ابتدا میں سب کھلاڑی شاندار رفتار سے دوڑ رہے تھے لیکن آخری لیپ میں ایک ایتھلیٹ، جو گولڈ میڈل کے لیے مضبوط امیدوار تھا، گر گیا اور زخمی ہو گیا۔ اس کے گرنے کے باوجود ایک اور ایتھلیٹ — مائیکل آندرے (فرضی نام) — نے جیت کی لکیر عبور کی اور پہلا نمبر حاصل کر لیا۔
فیصلہ جو دنیا کو حیران کر گیا
دوڑ ختم ہونے کے چند لمحے بعد مائیکل نے اپنی کامیابی کے باوجود اعلان کیا کہ وہ اپنا سونے کا تمغہ زخمی کھلاڑی کو دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کے مطابق "اصل فاتح وہی تھا، جس نے دوڑ میں آخری دم تک جان لڑائی۔”یہ اعلان سن کر پورے اسٹیڈیم میں سناٹا چھا گیا اور پھر تالیوں کی گونج سنائی دی۔ شائقین کے مطابق یہ لمحہ کھیل کے مقابلے سے بڑھ کر انسانیت کی فتح کا لمحہ تھا۔
کھیل کی اصل روح
ماہرین کھیل کے مطابق اولمپکس اور بڑے مقابلوں کی اصل روح صرف جیتنا نہیں بلکہ "فیئر پلے” اور "انسانیت” ہے۔ جب ایک ایتھلیٹ اپنی جیت قربان کرکے دوسروں کے جذبات کو مقدم رکھتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ کھیل ہمیں صرف طاقت نہیں بلکہ ہمدردی اور قربانی بھی سکھاتے ہیں۔
کرکٹ اور فٹبال میں ایسے واقعات
یہ پہلا موقع نہیں جب کھیلوں میں انسانیت کا پہلو غالب آیا ہو۔ کرکٹ میں کئی مواقع پر بلے باز نے ایمپائر کے فیصلے سے پہلے خود آؤٹ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ فٹبال میں 2018 کے ایک میچ میں گول کیپر نے ریفری کو بتایا کہ گیند نے لائن عبور نہیں کی تھی، حالانکہ گول اس کے حق میں دیا جا سکتا تھا۔یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ کھیل صرف جیتنے کا نام نہیں بلکہ کردار اور اخلاقیات کا امتحان بھی ہیں۔
ماہرین کی رائے
کھیلوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے واقعات نوجوان نسل کے لیے سب سے بڑا سبق ہیں۔ آج جب دنیا مقابلے اور جیتنے کی دوڑ میں اخلاقیات بھول رہی ہے، یہ مناظر یاد دلاتے ہیں کہ اصل کامیابی دوسروں کو نیچا دکھانے میں نہیں بلکہ دوسروں کو سہارا دینے میں ہے۔
شائقین کا ردعمل
ایک شائق نے کہا کہ "ہم ہمیشہ تمغے کے لیے لڑنے والوں کو دیکھتے ہیں، لیکن آج ہم نے ایک کھلاڑی کو انسانیت کے لیے جیتتے دیکھا۔”ایک اور نے لکھا”یہ لمحہ کتابوں میں لکھا جائے گا، کہ کھیل ہمیں صرف طاقتور نہیں بلکہ بہتر انسان بناتے ہیں۔”
مستقبل پر اثرات
اس واقعے کے بعد کئی ملکوں کی کھیل کمیٹیوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کی تربیت میں "اخلاقی کھیل” کے پہلو کو مزید اہمیت دیں گے۔ کچھ ماہرین نے تجویز دی کہ کھیلوں میں "فیئر پلے ایوارڈ” کو زیادہ نمایاں کیا جائے تاکہ دنیا کو یہ پیغام ملے کہ کھیلوں کا مقصد صرف جیتنا نہیں بلکہ انسانیت کو فروغ دینا بھی ہے۔اولمپکس کا یہ لمحہ تاریخ کے سنہری الفاظ میں درج ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک سبق ہے کہ کبھی کبھی جیتنا دوسروں کو اٹھانے میں ہے، نہ کہ صرف اپنی کامیابی میں۔دنیا شاید ان میڈلز کو بھول جائے، لیکن یہ لمحہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ جب کھیل میدان سے نکل کر دلوں تک پہنچ گئے۔