اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) یوکرین نے کہا ہے کہ وہ چاہتا ہے کینیڈا مستقبل کے سکیورٹی گارنٹی کے منصوبے میں ’’فعال طور پر‘‘ حصہ لے تاکہ روس کے ساتھ طویل المدتی امن معاہدے کو ممکن بنایا جا سکے۔
یہ بات یوکرین کے ایک اعلیٰ سفارتکار نے اس وقت کہی جب اتحادی ممالک اس حوالے سے عملی تجاویز پر مشاورت کر رہے ہیں۔کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی نے منگل کو ایک ورچوئل اجلاس میں شرکت کی جس میں یورپی اور دیگر عالمی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے اگلے اقدامات پر غور کرنا تھا۔ یہ بات چیت ایک روز قبل وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد کی گئی۔ نیٹو کے عسکری سربراہان بدھ کو اس عمل کو مزید آگے بڑھائیں گے۔
وزیراعظم کارنی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کینیڈا یوکرین کے لیے مکمل عزم رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے مزید سفارتی رابطے، روس پر فوجی و معاشی دباؤ، صدر زیلنسکی کے ساتھ قریبی تعاون، اور قابلِ بھروسہ سکیورٹی گارنٹی کے قیام پر کام جاری رہے گا۔
تاہم بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کینیڈا مستقبل کی سکیورٹی گارنٹی میں کس طرح کا عملی کردار ادا کرے گا۔یوکرین کے قونصل جنرل اولیگ نیکولینکو نے ٹورنٹو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین محتاط امید رکھتا ہے کہ اتحادیوں کی یہ کوششیں جنگ کے خاتمے کی طرف بڑھنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا”ہم پرامید ہیں لیکن سادہ لوح نہیں۔ روس کی جانب سے آنے والے ہر بیان کو بڑی احتیاط کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، تاہم اب تک ہونے والی ملاقاتیں تعمیری ثابت ہوئی ہیں۔”
صدر زیلنسکی نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اتحادی ممالک کی جانب سے یوکرین کے لیے سکیورٹی گارنٹی آئندہ 10 دنوں میں طے پا سکتی ہے۔ادھر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ سکیورٹی گارنٹی کی تفصیلات آئندہ سہ فریقی ملاقات سے قبل حتمی شکل اختیار کر لیں، تاکہ یوکرین کو مذاکرات کے لیے بہتر پوزیشن میں لایا جا سکے۔وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر زیلنسکی اور صدر پیوٹن کے درمیان آئندہ دو ہفتوں میں ملاقات کا امکان ہے جس کے بعد ضرورت پڑنے پر ٹرمپ، زیلنسکی اور پیوٹن کے درمیان سہ فریقی ملاقات بھی ہو سکتی ہے۔میکرون کے مطابق آئندہ چند روز کی مشاورت میں توجہ اس بات پر مرکوز ہوگی کہ "کون کیا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے” اور اس سلسلے میں خاص طور پر کینیڈا کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔