اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) کینیڈا اور امریکا کے درمیان تجارتی تنازع ایک نئے موڑ پر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کینیڈین وزیرِاعظم مارک کارنی کے درمیان حالیہ ٹیلی فونک رابطے نے اگرچہ بظاہر ایک "نتیجہ خیز اور مثبت” تاثر چھوڑا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ گفتگو واقعی مستقبل میں تعلقات میں بہتری لائے گی یا پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی؟ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا پر عائد کیے گئے 35 فیصد ٹیرف نے دوطرفہ تجارتی تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی مؤقف یہ ہے کہ کینیڈا منشیات، خاص طور پر فینٹانل کی اسمگلنگ روکنے میں تعاون نہیں کر رہا، جبکہ کینیڈا اس مؤقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جوابی ٹیرف نافذ کر چکا ہے۔ ایسے میں کارنی اور ٹرمپ کا رابطہ وقتی طور پر تو سفارتی ماحول کو نرم کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن زمینی حقائق اب بھی تلخ ہیں۔
کارنی نے گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا کہ کینیڈا CUSMA (شمالی امریکا کا آزاد تجارتی معاہدہ) کے تحت پرعزم ہے اور یہ کہ دوطرفہ تعلقات کو بگاڑنے سے عالمی سطح پر اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم ٹرمپ کا ماضی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ تجارتی معاہدوں کو اپنے سیاسی اور انتخابی ایجنڈے کے مطابق استعمال کرتے ہیں، اس لیے کسی فوری پیش رفت کی توقع کم ہی ہے۔مزید اہم بات یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں نے یوکرین جنگ اور یورپی سلامتی پر بھی گفتگو کی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کینیڈا اور امریکا کے تعلقات صرف تجارت تک محدود نہیں بلکہ عالمی جغرافیائی سیاست سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب تجارتی بنیاد ہی کمزور ہو جائے تو کیا سلامتی اور خارجہ پالیسی میں تعاون اتنا مضبوط رہ سکے گا؟ماہرین کے مطابق آنے والے دن فیصلہ کن ہوں گے۔ اگر ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی نرم نہ کی تو کینیڈا کے پاس عالمی سطح پر مزید تجارتی اتحادی تلاش کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ اور اگر کارنی اور ٹرمپ کی یہ گفتگو عملی اقدامات میں تبدیل ہوئی تو شمالی امریکا کے تعلقات میں ایک نئی راہ کھل سکتی ہے۔