اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) یونیورسٹی آف آئیڈاہو کے چار طلبہ کے قتل کے مجرم برائن کوہبرگر نے عمر قید کی سزا پانے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے اندر جیل منتقلی کی درخواست دے دی ہے۔ اس نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اسے موجودہ جیل میں قیدیوں کی جانب سے جنسی ہراسانی اور مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔
برائن کوہبرگر گزشتہ ماہ مجرم قرار پایا تھا اور اسے پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس پر الزام تھا کہ نومبر 2022 میں اس نے یونیورسٹی آف آئیڈاہو کے طلبہ کیلی گونکالویس (21)، میڈیسن موگن (21)، زینا کرنوڈل (20) اور ایتھن چیپن (20) کو کرائے کے مکان میں وحشیانہ طور پر چاقو کے وار کر کے ہلاک کیا۔
امریکی جریدے پیپل کی خصوصی رپورٹ کے مطابق، برائن کوہبرگر نے 30 جولائی کو ایک ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ جمع کرایا جس میں اس نے کہا کہ وہ آئیڈاہو میکسمم سیکیورٹی انسٹیٹیوشن کے J-Block کی "یونٹ 2″ میں مزید رہنا نہیں چاہتا۔ وہ یہاں صرف ایک رات گزارنے کے بعد ہی جیل منتقلی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
اپنے نوٹ میں کوہبرگر نے لکھا *”میں نہ تو حالیہ پانی کے بہانے یا دیگر تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہوں اور نہ ہی کسی قیدی پر حملہ کر رہا ہوں۔ لیکن یونٹ 2 میں مجھے لمحہ بہ لمحہ زبانی دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا ہے، اسی وجہ سے میں اس ماحول سے منتقل ہونا چاہتا ہوں۔”
یہاں "پانی بہانے” سے مراد وہ ہنگامہ آرائی ہے جو کچھ قیدی جان بوجھ کر اپنے سیلز میں پانی بھر کر پیدا کرتے ہیں۔بعد ازاں، 4 اگست کو برائن کوہبرگر نے ایک اور تحریری شکایت دی جس میں اس نے الزام لگایا کہ دوسرے قیدی اسے گالی گلوچ اور جنسی نوعیت کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اس کے مطابق، ایک قیدی نے اس سے کہا:”میں تمہارے ساتھ زبردستی جنسی فعل کروں گا۔”
جبکہ ایک اور قیدی نے مبینہ طور پر کہا*”ہم صرف کوہبرگر کا جسم ہی استعمال کریں گے۔”یہ الفاظ اس کے لیے سخت ہراسانی اور خوف کا باعث بنے ہیں۔ایک جیل گارڈ نے جو یہ شکایت موصول ہوئی تھی، اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ واقعی کوہبرگر کو نازیبا اور گندی زبان میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ تاہم گارڈ یہ شناخت نہیں کر سکا کہ یہ دھمکیاں دینے والے قیدی کون تھے۔
برائن کوہبرگر ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے یونیورسٹی آف آئیڈاہو کے چار بے گناہ نوجوانوں کو انتہائی بے رحمی سے قتل کیا۔ عدالت نے اسے عمر بھر قید کی سزا سنائی ہے، لیکن جیل میں اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ایک نئی بحث کو جنم دے رہے ہیں۔یہ سوال اہم ہے کہ کیا سنگین جرائم کے مجرم بھی جیل میں بنیادی انسانی حقوق اور تحفظ کے مستحق ہیں؟ کوہبرگر کے خلاف نفرت اور دیگر قیدیوں کے ردعمل کو سمجھا جا سکتا ہے، لیکن جیل انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر قیدی کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرے۔برائن کوہبرگر کی منتقلی کی درخواست پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا، تاہم اس کی شکایات اور جیل میں پیش آنے والے واقعات نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ بدنام زمانہ مجرمان کو جیل میں کس حد تک تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔