32
اردو ورلڈ کینیڈا (ویب نیوز ) پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک اور سنگین ترین قدرتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
رواں برس مون سون بارشوں کے آغاز کے ساتھ ہی دریاؤں میں طغیانی آئی اور ملک کے مختلف حصے پانی میں ڈوب گئے۔ موسلا دھار بارشوں اور دریائی ریلوں نے پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے نتیجے میں اب تک 800 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ایک ہزار کے قریب زخمی ہیں۔ ان زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں، جنہیں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مزید مسائل کا سامنا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی عمارتیں بھی زیرِ آب آنے یا تباہ ہونے کے باعث امدادی کام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
سیلاب کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان ان علاقوں کو پہنچا ہے جو دریاؤں کے کناروں پر واقع ہیں۔ دریائے ستلج اور دیگر بڑے دریاؤں کے کنارے آباد درجنوں گاؤں مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئے۔ صرف پنجاب میں 335 گاؤں متاثر ہوئے ہیں جن میں 380,000 سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے۔ ان میں سے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر عارضی پناہ گاہوں یا سرکاری اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بے گھر ہونے والے یہ خاندان نہ صرف خوراک اور صاف پانی کی قلت کا شکار ہیں بلکہ بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرات بھی ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ہیضہ، ڈائریا اور ملیریا جیسی وبائیں ان علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہیں کیونکہ پانی کے ذخائر آلودہ ہو چکے ہیں اور صفائی ستھرائی کی سہولیات مکمل طور پر ناکارہ ہو گئی ہیں۔
عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی بھی اس سیلاب کی سنگین تصویر پیش کر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1,676 عمارتیں متاثر ہوئی ہیں، جن میں سے 562 مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی ہیں۔ ہزاروں مکانات کی دیواریں گر گئی ہیں یا ان کے کمرے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ پل، سڑکیں اور شاہراہیں بھی پانی میں بہہ جانے یا کٹاؤ کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو گئی ہیں۔ سیالکوٹ-پاسرور ڈوئل کیریوی پر ایک کلومیٹر تک پانی جمع ہونے سے آمد و رفت معطل ہو گئی ہے، جس سے امدادی کارروائیوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ شمالی علاقوں میں کئی چھوٹے پل ٹوٹ جانے کے باعث دیہات کا زمینی رابطہ مکمل طور پر کٹ گیا ہے۔
زرعی شعبہ، جو پاکستان کی معیشت میں 24 فیصد حصہ رکھتا ہے، اس سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہزاروں ایکڑ فصلیں یا تو مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئیں یا شدید نقصان کا شکار ہوئیں۔ کسان، جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں اور مہنگائی کی وجہ سے مسائل کا شکار تھے، اب اپنے روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ صرف چند ہفتوں میں سات ہزار سے زائد مکانات زرعی علاقوں میں برباد ہو چکے ہیں اور 5,500 سے زیادہ مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف متاثرہ خاندانوں کی معیشت کے لیے تباہ کن ہے بلکہ مستقبل میں ملک بھر میں خوراک کی قلت اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ انسانی المیہ بھی شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ لاکھوں متاثرہ افراد کھلے آسمان تلے یا عارضی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خواتین اور بچیوں کو پناہ گاہوں میں خصوصی مشکلات کا سامنا ہے، جہاں رازداری، طبی سہولیات اور بنیادی ضروریات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچوں کی تعلیم بھی مکمل طور پر تعطل کا شکار ہے کیونکہ متاثرہ علاقوں کے بیشتر اسکول یا تو پانی میں ڈوب گئے ہیں یا پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔یہ سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی ایک واضح ثبوت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشوں کی شدت اور دریاؤں میں غیر معمولی طغیانی عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ پہاڑوں میں برف کے تیزی سے پگھلنے اور غیر منصوبہ بند تعمیرات نے بھی اس آفت کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ یہ پہلو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک خطرناک انتباہ ہے جو پہلے ہی ماحولیاتی بحران کی لپیٹ میں ہے۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 2022 میں اپنی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب دیکھا تھا۔ اس سیلاب نے 33 ملین افراد کو متاثر کیا، تقریباً 8 ملین لوگوں کو بے گھر کیا اور 1,760 سے زیادہ جانیں لیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ اس وقت بھی دنیا نے پاکستان کو ایک بڑے ماحولیاتی المیے کی مثال قرار دیا تھا اور عالمی برادری نے مدد کی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ آج 2025 میں آنے والا یہ نیا سیلاب ایک بار پھر یاد دلا رہا ہے کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی کتنی سنگین حقیقت بن چکی ہے۔ اگرچہ موجودہ نقصان 2022 کی تباہی کے برابر نہیں، لیکن یہ اپنی شدت اور اثرات کے لحاظ سے اسی کی توسیع محسوس ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے فوری ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یو این نے 6 لاکھ ڈالر کی ہنگامی امداد جاری کی ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے۔ تاہم زمینی حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ امداد اس بڑے پیمانے کے نقصان کے مقابلے میں ایک قطرے کے برابر ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو طویل المدتی بحالی، گھروں کی تعمیر، روزگار کے مواقع اور صحت و تعلیم کی سہولیات کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ مقامی وسائل سے ممکن نہیں، اس کے لیے عالمی برادری کو بڑے پیمانے پر مالی اور تکنیکی تعاون فراہم کرنا ہوگا۔
پاکستانی حکام کے مطابق اب تک تقریباً 20,000 افراد بے گھر ہو کر پناہ گاہوں میں مقیم ہیں، جبکہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ دور دراز کے دیہات میں امدادی ٹیمیں ابھی تک نہیں پہنچ سکیں۔ بے گھر افراد کے لیے فوری طور پر صاف پانی، خوراک، ادویات اور کپڑوں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سہولیات بروقت فراہم نہ کی گئیں تو اموات کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔اس سیلاب نے ایک بار پھر یہ حقیقت اجاگر کر دی ہے کہ پاکستان میں آفات سے نمٹنے کا نظام ابھی تک کمزور ہے۔ اگرچہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ادارے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، لیکن وسائل کی کمی، انفراسٹرکچر کی تباہی اور ناقص منصوبہ بندی نے ان کے کام کو محدود کر دیا ہے۔ مقامی سطح پر رضاکار اور فلاحی ادارے بھی سرگرم ہیں لیکن سیلاب کی وسعت اتنی بڑی ہے کہ ان کی کوششیں ناکافی محسوس ہو رہی ہیں۔
عالمی سطح پر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف ہنگامی ردعمل بلکہ طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس میں دریاؤں کے کنارے حفاظتی بندوں کی تعمیر و مرمت، نکاسی آب کے نظام کی بہتری، شہری منصوبہ بندی اور ماحول دوست اقدامات شامل ہیں۔ اگر ایسے اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں مزید شدید سیلاب پاکستان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔