27
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) کینیڈا میں انڈیجنس شناخت کے حوالے سے ایک نیا تنازع سامنے آیا ہے جس نے نہ صرف عدالتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ انڈیجنس برادریوں اور عوامی حلقوں میں بھی ایک وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔
یوکون سپریم کورٹ میں چار خواتین اور ان کی والدہ نے ایک فرسٹ نیشن خاتون، کرسٹل سیماگانس، کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ مدعیان کا الزام ہے کہ سیماگانس نے انہیں ’’پریٹنڈینز‘‘ یعنی جھوٹی انڈیجنس شناخت کے دعویدار قرار دے کر ان کی ساکھ، کیریئر اور ذہنی سکون کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ مقدمہ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے جو کینیڈا میں انڈیجنس شناخت، حقوق اور وسائل کی تقسیم سے جڑا ہے۔
مقدمے کی تفصیل اور مدعی خواتین کا مؤقف
مدعیان میں مانڈا بفیلو، کرسٹا ریڈ، امیریس مینڈرشائیڈ اور ان کی والدہ لوئز ڈاروچ شامل ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ سیماگانس نے اکتوبر 2024 کے بعد ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ’’بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی مہم‘‘ شروع کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سیماگانس نے انہیں ’’فراڈی‘‘، ’’جھوٹی‘‘، ’’نسل پرست‘‘ اور ’’وسائل لوٹنے والی‘‘ خواتین کے طور پر پیش کیا۔ ان کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب سیماگانس نے ان کے خاندانی پس منظر کی تحقیق کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ یوکرینی نسل سے تعلق رکھتی ہیں، نہ کہ انڈیجنس برادری سے۔مدعی خواتین کا کہنا ہے کہ اس مہم نے نہ صرف ان کی ذاتی اور سماجی زندگی کو متاثر کیا بلکہ ان کے پیشہ ورانہ مواقع، تعلیمی مستقبل اور کاروباری روابط بھی تباہ ہو گئے۔ وہ عدالت سے **5 لاکھ کینیڈین ڈالر سے زائد ہرجانہ** اور ایک تحریری معافی نامہ طلب کر رہی ہیں تاکہ ان کے وقار کو بحال کیا جا سکے۔
میں اپنی برادری کے تحفظ کیلئے کھڑی ہوں ، سیماگانس
دوسری طرف کرسٹل سیماگانس ، جو ’’میشل کرسٹین کیمرون‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں، خود کو ایک فرسٹ نیشن کارکن اور ’’گوسٹ وارئیر سوسائٹی‘‘ کی سربراہ کہتی ہیں۔ وہ ایک سکسیز اسکوپ سروائیور ہیں، یعنی وہ ان ہزاروں انڈیجنس بچوں میں شامل ہیں جنہیں 1951 سے 1991 کے درمیان زبردستی ان کے خاندانوں سے دور کر کے غیر انڈیجنس گھروں میں پالا گیا۔سیماگانس کا کہنا ہے کہ ان کا کام انڈیجنس کمیونٹیز کے اندر ان ’’جعلی دعویداروں‘‘ کو بے نقاب کرنا ہے جو اپنی جھوٹی شناخت کے ذریعے ان وسائل اور مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اصل انڈیجنس افراد کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ’’پریٹنڈینزم‘‘ کو روکا نہ گیا تو یہ کمیونٹیز کے وجود کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے > ’’اگر ہم بار بار جھوٹے دعویداروں کا سامنا کریں گے تو ہماری برادریوں کے اصل لوگ شک اور بے اعتمادی میں گھر جائیں گے۔ یہ صرف شناخت کا مسئلہ نہیں بلکہ بقا کا مسئلہ ہے۔‘‘
’’سِکسیز اسکوپ‘‘ اور شناخت کا بحران
اس تنازعے کو سمجھنے کیلئے ’’سِکسیز اسکوپ‘‘ کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کینیڈا میں ہزاروں انڈیجنس بچوں کو ان کے گھروں سے دور کر کے غیر انڈیجنس خاندانوں میں رکھا گیا، جس کے نتیجے میں وہ اپنی زبان، ثقافت اور روایات سے محروم ہو گئے۔سیماگانس کا ماننا ہے کہ بہت سے ’’پریٹنڈینز‘‘ اسی تاریخی سانحے کو بہانہ بنا کر اپنی انڈیجنس شناخت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ انڈیجنس برادریوں کیلئے مختص سہولیات، پلیٹ فارمز اور مالی وسائل پر قابض ہو سکیں۔ ان کے مطابق یہ رجحان گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے بڑھا ہے اور یہ اصل انڈیجنس لوگوں کیلئے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
مدعی خواتین کا مؤقف
مدعی خواتین نے اپنے وکیل ٹینا یانگ کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ سیماگانس کی تحقیق ناقص اور ناکافی تھی۔ ان کے مطابق سیماگانس نے چند غیر مصدقہ دستاویزات کی بنیاد پر ان کی نسل اور شناخت پر سوال اٹھایا اور پھر سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم کے ذریعے ان کی ساکھ کو تباہ کیا۔ان کے مطابق اس مہم کے نتیجے میں انہیں شدید ذہنی دباؤ، معاشی نقصان، پیشہ ورانہ مواقع کے خاتمے اور سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس معاملے کو صرف ایک شخصی جھگڑا نہیں بلکہ اپنی عزت اور شناخت کے تحفظ کا مسئلہ قرار دیتی ہیں۔
قانونی پہلو اور عدالت میں اٹھنے والے سوالات
یہ مقدمہ کئی اہم قانونی سوالات کو جنم دیتا ہے 1. کیا کسی کو ’’پریٹنڈین‘‘ کہنا آزادیِ اظہار کے حق میں آتا ہے یا یہ ہتکِ عزت ہے؟2. کیا انڈیجنس شناخت کے تعین کیلئے کوئی واضح اور قابلِ اعتماد معیار موجود ہے؟3. کیا عدالت کسی فرد یا گروہ کی نسلی شناخت کا تعین کر سکتی ہے یا یہ صرف کمیونٹی کا حق ہے؟4. کیا سوشل میڈیا پر تحقیق کو عام کرنا اور عوامی سطح پر افراد کو ’’جھوٹا‘‘ کہنا قانونی طور پر درست ہے؟
یہ سوالات نہ صرف عدالت کیلئے چیلنج ہیں بلکہ کینیڈین معاشرے کیلئے بھی ایک بڑی بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔
انڈیجنس رہنماؤں کا مؤقف اور قومی سطح پر بحث
یہ معاملہ صرف چند افراد کے درمیان تنازع نہیں بلکہ ایک وسیع تر مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی معروف شخصیات، مثلاً **بفی سینٹ میری** اور **میری ایلن ٹرپل-لافونڈ** کی انڈیجنس شناخت پر سوال اٹھے، جس کے نتیجے میں انڈیجنس کمیونٹیز میں بے اعتمادی اور اختلافات پیدا ہوئے۔
سماجی اثرات: اعتماد کا بحران
اس مقدمے نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ انڈیجنس شناخت کو کیسے محفوظ اور تسلیم کیا جائے۔ کئی کمیونٹیز میں یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ ’’پریٹنڈینز‘‘ اصل انڈیجنس لوگوں کے مواقع چھین رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی خطرہ موجود ہے کہ کہیں حقیقی طور پر شناخت کے بحران میں مبتلا افراد کو بھی شک کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔یہ مقدمہ انڈیجنس اور غیر انڈیجنس کمیونٹیز کے درمیان تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ شناخت کے جھگڑوں نے ماضی میں بھی کئی خاندانی اور سماجی تنازعات کو جنم دیا ہے۔
مستقبل کیلئے خدشات اور سوالیہ نشان
1. کیا عدالت اس مقدمے میں کوئی ایسا فیصلہ دے گی جو آئندہ کے تمام شناختی تنازعات کیلئے مثال بنے؟2. کیا کینیڈا میں انڈیجنس شناخت کے حوالے سے کوئی قومی سطح کا باضابطہ نظام بنایا جائے گا؟
3. کیا سوشل میڈیا کو اس طرح کی حساس بحث کیلئے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے؟4. اور سب سے اہم سوال: کیا اس مقدمے کے نتیجے میں انڈیجنس کمیونٹیز مزید متحد ہوں گی یا مزید تقسیم کا شکار؟
یوکون سپریم کورٹ میں چلنے والا یہ مقدمہ بظاہر چند خواتین اور ایک کارکن کے درمیان جھگڑا لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ پورے کینیڈا میں انڈیجنس شناخت، وسائل، حقوق اور آزادیِ اظہار سے جڑے سوالات کا عکاس ہے۔ کرسٹل سیماگانس اپنے آپ کو کمیونٹی کی محافظ سمجھتی ہیں جبکہ مدعی خواتین اپنے آپ کو عزت اور شناخت کے تحفظ کی جنگ لڑنے والی قرار دیتی ہیں۔