33
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں اور نہتے فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم نے عالمی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کر فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت پر فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ جرمنی، اٹلی، سوئیڈن اور اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاجی مظاہرے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اب یہ مسئلہ صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ چکا ہے۔
یورپ میں احتجاجی لہر
یورپی ممالک میں غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے خلاف زبردست احتجاج دیکھنے میں آیا۔ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرین نے نہ صرف فلسطینی عوام کے حق میں نعرے لگائے بلکہ اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ریلیوں میں شریک لوگوں نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور بینرز پر ’’فلسطین کی آزادی‘‘ اور ’’غزہ کی نسل کشی بند کرو‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔
اٹلی کے تاریخی شہر وینس میں بھی ایک بڑی ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک تھے۔ وہاں موجود مظاہرین نے کہا کہ غزہ پر بمباری کسی بھی انسانی اصول یا عالمی قوانین کے مطابق درست نہیں۔ کئی مقررین نے واضح کیا کہ خاموش رہنا اسرائیلی مظالم کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔
سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا۔ اس احتجاج میں پاکستانی کمیونٹی نے بھرپور شرکت کی اور فلسطینی پرچموں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ مقررین نے کہا کہ آج فلسطینی عوام کی حمایت کرنا ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے۔ انہوں نے عالمی اداروں اور اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ فوری طور پر جنگ بندی کروائی جائے تاکہ مزید جانیں ضائع نہ ہوں۔
اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی ایک بڑی تعداد میں شہری اپنی ہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ تل ابیب اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے شرکت کی۔ ان مظاہرین نے وزیراعظم نیتن یاہو سے غزہ جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ نے نہ صرف فلسطینیوں کو تباہ کیا بلکہ خود اسرائیلی عوام کو بھی عدم تحفظ اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔کئی اسرائیلی مظاہرین نے کہا کہ یہ جنگ صرف سیاسی مقاصد کے لیے جاری رکھی گئی ہے اور اس کا کوئی حقیقی حل سامنے نہیں آیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت بات چیت اور سفارتی طریقوں سے مسئلے کا حل نکالے نہ کہ مزید خونریزی سے۔
عالمی سطح پر اثرات
غزہ پر جاری اسرائیلی مظالم نے عالمی امن کے حوالے سے بھی بڑے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ جاری رہی تو خطے میں مزید کشیدگی بڑھے گی جس کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہیں گے۔ تیل کی ترسیل، تجارتی راستے، اور عالمی منڈی بھی اس صورتحال سے متاثر ہو سکتی ہیں۔یورپ میں بڑھتے احتجاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ عام عوام اسرائیلی بیانیے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہاں کی حکومتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں اور اسرائیل کو اندھا دھند حمایت فراہم کرنے کے بجائے انسانی حقوق کے اصولوں کو مقدم رکھیں۔
احتجاجی ریلیوں میں شریک افراد کے نعروں نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ ’’فری فلسطین‘‘، ’’اسٹاپ جنوسائیڈ ان غزہ‘‘، ’’ہم سب فلسطینی ہیں‘‘ اور ’’بچوں پر بمباری بند کرو‘‘ جیسے نعروں نے مظاہروں کو شدت بخشی۔جرمنی کے ایک مظاہر میں شریک خاتون نے کہا کہ وہ فلسطینی ماں کو نہیں جانتی جس نے اپنے بچے کو کھویا، لیکن ایک ماں ہونے کے ناطے وہ اس درد کو محسوس کر سکتی ہے۔ اسی طرح اٹلی میں ایک طالب علم نے کہا کہ اگر یورپ نے اس موقع پر خاموشی اختیار کی تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ ہوگا۔
مسلمانوں اور پاکستانی کمیونٹی کا کردار
سوئیڈن اور دیگر یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے نہ صرف ریلیوں کا انعقاد کیا بلکہ امدادی کیمپ بھی لگائے تاکہ غزہ کے عوام کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
بین الاقوامی میڈیا نے ان مظاہروں کو نمایاں کوریج دی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی فوج کی کارروائیاں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے کہا کہ جنگی جرائم پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔عالمی سطح پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو غزہ میں انسانی المیہ مزید سنگین ہو جائے گا۔ خوراک، پانی اور طبی امداد کی کمی پہلے ہی ہزاروں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال چکی ہے۔احتجاج کرنے والے لوگوں نے یہی پیغام دیا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ مظاہرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دنیا اب مزید خاموش نہیں رہے گی۔