25
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
2020 میں ’’ابراہیمی معاہدے (Abraham Accords) کے تحت متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونا خطے کی سیاست میں ایک اہم موڑ سمجھا گیا۔ اس معاہدے کے بعد کئی شعبوں میں تعاون بڑھا، تجارتی و سیاحتی روابط قائم ہوئے اور عالمی برادری نے اسے امن کی جانب ایک پیش رفت قرار دیا۔ تاہم فلسطین اور مقبوضہ علاقوں کا مسئلہ بدستور ایک سنگین حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ تازہ ترین پیش رفت میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ مغربی کنارے (West Bank) کا کوئی بھی یک طرفہ الحاق ’’سرخ لکیر‘‘ ثابت ہوگا۔
مغربی کنارہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ (جسے چھ روزہ جنگ بھی کہا جاتا ہے) کے دوران اسرائیل کے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے اس خطے میں متعدد بستیاں قائم کیں، جن کی تعداد اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 160 سے زیادہ ہے اور ان میں تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی قانون، بالخصوص چوتھا جنیوا کنونشن، کسی قابض طاقت کو اپنے شہریوں کو زیر قبضہ علاقے میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی بنیاد پر عالمی برادری ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔
اسرائیل کے بعض انتہاپسند سیاسی حلقے مغربی کنارے کے بڑے حصے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے (annexation) پر زور دیتے آئے ہیں۔ موجودہ اسرائیلی حکومت کے بعض وزراء نے حالیہ مہینوں میں اس معاملے پر عملی اقدامات کی تجویز دی ہے، جس میں وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کردہ یہ رائے بھی شامل ہے کہ مغربی کنارے کے پانچ میں سے چار حصوں کو ضم کر لیا جائے۔ یہ تجویز براہِ راست دو ریاستی حل (Two-State Solution) کے تصور کے خلاف ہے اور فلسطینی عوام کے لیے اپنی خودمختار ریاست کا راستہ مزید مسدود کر سکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کا مؤقف
اماراتی معاون وزیر برائے خارجہ امور، لانا نصیبہ نے حالیہ بیان میں کہاکہ مغربی کنارے کا کسی بھی قسم کا الحاق ’’سرخ لکیر‘‘ سمجھا جائے گا۔ ایسا قدم ابراہیمی معاہدے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے گا، جس کے تحت اسرائیل اور یو اے ای کے تعلقات معمول پر آئے۔ متحدہ عرب امارات فلسطینی عوام کے حقوق اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھے گا۔یہ بیان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یو اے ای اگرچہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے، مگر فلسطینی مسئلے پر اپنی بنیادی پالیسی نہیں چھوڑنا چاہتا۔
فلسطینی قیادت کا ردعمل
فلسطینی اتھارٹی نے یو اے ای کے مؤقف کا خیرمقدم کیا ہے۔ فلسطینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق امارات کا بیان فلسطینی عوام کی امیدوں کو تقویت دیتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ عرب دنیا اب بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی خواہاں ہے۔ اس ردعمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی قیادت، عرب ممالک کے تعاون کو دو ریاستی حل کے لیے اہم سمجھتی ہے۔
اسرائیلی ردعمل اور سیاسی ماحول
اب تک اسرائیلی حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ تاہم اسرائیل کی داخلی سیاست میں اس موضوع پر گہری تقسیم موجود ہے،
انتہاپسند حلقے
الحاق کو ایک تاریخی موقع اور ’’یہودی حقِ ملکیت‘‘ کی تکمیل قرار دیتے ہیں۔
لبرل اور معتدل حلقے
اسے عالمی برادری کی مخالفت، معاشی پابندیوں اور خطے میں نئے تنازعات کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین بھی اسرائیلی الحاق کو دو ریاستی حل کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
ابراہیمی معاہدے پر اثرات
ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل، یو اے ای اور بحرین نے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اس کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اسی نوعیت کے اقدامات کیے۔ اس معاہدے کی بنیادی روح یہ تھی کہ اسرائیل فلسطینی علاقے کے مزید انضمام سے گریز کرے اور عرب ممالک اسرائیل کو خطے کا جائز فریق تسلیم کریں۔
# بین الاقوامی قانون اور عالمی رائے
اقوام متحدہ کی قراردادیں واضح طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں۔ متعدد عالمی ادارے الحاق کے کسی بھی اقدام کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ اگر اسرائیل ایسا قدم اٹھاتا ہے تو * عالمی برادری کی طرف سے مذمت کے بیانات آئیں گے۔ بعض ممالک سفارتی تعلقات پر نظرِ ثانی کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں اسرائیل کے خلاف مقدمات بڑھ سکتے ہیں۔
خطے کی سلامتی کے مضمرات
مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہے۔ شام، یمن اور لبنان جیسے محاذوں پر تنازعات جاری ہیں۔ اسرائیلی الحاق کی صورت میں:فلسطینی مزاحمتی گروہ نئی تحریکیں شروع کر سکتے ہیں۔
غزہ اور مغربی کنارے میں احتجاجی لہریں جنم لے سکتی ہیں۔ اسرائیل اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔* خطے میں امن قائم رکھنے کی عالمی کوششیں متاثر ہوں گی۔
متحدہ عرب امارات کی حکمتِ عملی
یو اے ای نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے باوجود بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام عرب ممالک کے اجتماعی مفاد میں ہے۔ امارات نے اقوام متحدہ میں بھی فلسطینی عوام کے حقوق کے حق میں قراردادوں کی حمایت کی ہے۔
متحدہ عرب امارات کا تازہ بیان واضح پیغام دیتا ہے کہ فلسطینی مسئلہ اب بھی عرب دنیا کے لیے بنیادی ترجیح ہے۔ اسرائیل اگر الحاق کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ نہ صرف ابراہیمی معاہدے کو نقصان پہنچائے گا بلکہ خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دے گا۔ امن کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں فریق بین الاقوامی قوانین اور دو ریاستی حل کے اصولوں پر کاربند رہیں۔