23
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) غزہ پر اسرائیلی بمباری سے مزید 70 فلسطینی شہید ہوگئے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے رکنے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ الجزیرہ کے مطابق بدھ کے روز غزہ میں اسرائیلی فوج کی بے رحمانہ بمباری میں کم از کم 73 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں امداد کے متلاشی متعدد افراد بھی شامل ہیں۔اسرائیلی فوج نے غزہ میں
فلسطین خصوصاً غزہ گزشتہ کئی ماہ سے شدید انسانی بحران اور لگاتار اسرائیلی حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ محصور علاقے میں خوراک، ادویات اور صاف پانی کی فراہمی تقریباً معطل ہے۔ بین الاقوامی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر صورتحال کو فوری طور پر نہ سنبھالا گیا تو ہزاروں افراد بھوک اور بیماری سے جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قحط اور جبری فاقہ کشی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 367 تک پہنچ گئی ہے جن میں 131 بچے شامل ہیں، جبکہ بمباری سے شہداء کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ الجزیرہ اور مقامی ذرائع کے مطابق بدھ کے روز اسرائیلی فوج کی شدید بمباری کے نتیجے میں کم از کم 73 فلسطینی شہید ہوئے۔
وسطی غزہ
(دیر البلح) میں پناہ گزین کیمپ پر گولہ باری سے چھ افراد شہید ہوئے۔غذائی قلت اور بھوک کے نتیجے میں مزید چھ فلسطینیوں نے دم توڑ دیا، یوں فاقہ کشی سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 367 تک جا پہنچی۔
اسرائیلی افواج نے امدادی مراکز کے قریب بھی حملے کیے، جس سے امداد کے حصول کی کوشش کرنے والے کئی افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔
انسانی بحران کی سنگینی
غزہ 2007 سے محاصرے کی زد میں ہے، لیکن حالیہ مہینوں میں حالات مزید بگڑ چکے ہیں
خوراک کی قلت
اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث آٹا، دودھ اور صاف پانی نایاب ہو چکا ہے۔طبی سہولیات کا فقدان:** اسپتالوں میں ایندھن ختم ہو چکا، ادویات اور آلات کی کمی ہے۔
پناہ گزینی کا بحران
لاکھوں افراد عارضی کیمپوں میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچوں اور خواتین کو درپیش خطرات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو قحط وسیع پیمانے پر ہلاکتیں لا سکتا ہے۔
سیاسی اور سفارتی ردعمل
مقبوضہ بیت المقدس
میں اسرائیلی شہریوں کی بڑی تعداد نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا، یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
اسکاٹ لینڈ
نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے **سرکاری فنڈنگ معطل** کر دی۔ یہ اقدام عالمی دباؤ کا عکاس ہے اور یورپ میں بڑھتے ہوئے انسانی ہمدردی کے خدشات کی نشاندہی کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں جنگ بندی اور امداد کی فوری فراہمی پر زور دے رہی ہیں۔
قانونی و اخلاقی پہلو
بین الاقوامی قانون، خصوصاً جنیوا کنونشن کے مطابق شہری آبادی پر اجتماعی سزا دینا اور امدادی سامان کو روکنا جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
جبری فاقہ کشی
کو عالمی سطح پر ایک انسانی المیہ تصور کیا جاتا ہے۔ خوراک اور دوا کی ترسیل میں رکاوٹ** اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے عالمی معیارات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
علاقائی اور عالمی خطرات
غزہ کے بحران کے طویل ہونے سے خطے میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے فلسطینی علاقوں میں احتجاج اور غصہ مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ اردگرد ممالک (مصر، اردن، لبنان) میں سرحدی دباؤ اور مہاجرین کا مسئلہ بڑھ سکتا ہے۔عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف مظاہرے اور بائیکاٹ تحریکیں تیز ہو رہی ہیں۔
انسانی ہمدردی کی کوششیں
عالمی ریڈ کراس، ہلال احمر اور دیگر فلاحی تنظیمیں محدود وسائل کے باوجود امدادی قافلے بھیجنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ترکی، قطر اور بعض یورپی ممالک خوراک اور ادویات پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر ’’فوری جنگ بندی‘‘ کی اپیل دہرائی ہے، مگر تاحال مستقل حل سامنے نہیں آیا۔ غزہ میں جاری قحط، فاقہ کشی اور مسلسل بمباری ایک سنگین انسانی المیہ ہے جس کی ذمہ داری عالمی برادری پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور معصوم جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال کا واحد حل یہی ہے کہ اسرائیل فوری طور پر حملے روکے، امداد کو بلا روک ٹوک داخل ہونے دے اور ایک پائیدار سیاسی حل کی راہ ہموار ہو۔