اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)البرٹا کی حکومت اساتذہ پر زور دے رہی ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں تاکہ جاری تعطل ختم کیا جا سکے، لیکن اساتذہ کی یونین کا کہنا ہے کہ صوبے کو اس پیشکش سے آگے بڑھنا ہوگا جسے اساتذہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
صوبائی وزیرِ خزانہ نیٹ ہورنر نے کہا ہے کہ اساتذہ کو تازہ ترین پیشکش پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان کے احترام کا مظہر ہے۔ہم کبھی مذاکرات کی میز سے نہیں اٹھے،
تقریباً ایک ہفتہ گزرنے کے بعد جب البرٹا ٹیچرز ایسوسی ایشن نے بات چیت چھوڑ دی تھی، یونین کے صدر جیسن شیلنگ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ خوشی سے واپس آنے کو تیار ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اساتذہ کی تشویش ، خاص طور پر کلاس روم کی صورتحال اور تنخواہوں، کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
شیلنگ نے کہاجب ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اسٹیئرنگ وہیل پر دونوں ہاتھ ہوتے ہیں … اور جب آپ تعطل کا شکار ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔”
حکومتی پیشکش میں چار سالوں میں 12 فیصد تنخواہوں میں اضافہ اور تین سالوں میں 3,000 نئے اساتذہ کی بھرتی شامل ہے۔
ہورنر کے مطابق ہمیں سننے کو ملا کہ مسئلہ صرف تنخواہوں کا نہیں بلکہ کلاس روم کی پیچیدگی کا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ہم نے دونوں پہلوؤں کو ایڈریس کیا ہے، اس کے باوجود ہم اسی جگہ کھڑے ہیں۔
اسی دوران، اساتذہ کی جانب سے ہڑتال کے اختیار (strike mandate) کا وقت بھی قریب آ رہا ہے۔ اساتذہ زیادہ سے زیادہ 7 اکتوبر تک ہڑتال پر جا سکتے ہیں، تاہم اس کے لیے 72 گھنٹے پہلے نوٹس دینا لازمی ہوگا۔ دوسری طرف، ٹیچرز ایمپلائر بارگیننگ ایسوسی ایشن (جو اسکول بورڈز کی نمائندگی کرتی ہے) کو بھی لاک آؤٹ کا اختیار دیا جا چکا ہے۔
یونین طویل عرصے سے یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ قومی اعدادوشمار کے مطابق البرٹا میں فی طالب علم فنڈنگ ملک میں سب سے کم ہے۔ شیلنگ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سال میں اساتذہ کی تنخواہوں میں صرف 5.75 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو مہنگائی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس سے نئے اساتذہ کو متوجہ یا پرانے اساتذہ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
پیر کو انہوں نے والدین سے کہا کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں:
"انہیں حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ کیوں یہ حکومت کے لیے قابلِ قبول ہے کہ صوبے میں پبلک ایجوکیشن کو بحران کا سامنا ہو۔”
دوسری طرف ہورنر نے کہا کہ حکومت ایک نئے مالی دباؤ میں ہے کیونکہ صوبے کا خسارہ 6.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
"اپریل — جب پہلی ڈیل ہوئی تھی — سے اب تک سب سے بڑی تبدیلی صوبے کی بگڑتی ہوئی مالی صورتحال ہے،” انہوں نے کہا۔