5
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) دنیا کے مختلف خطوں میں فلسطین کے حق میں آوازیں دن بدن بلند ہو رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ، جرمنی، اسپین اور حتیٰ کہ اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، جہاں انہوں نے نہ صرف غزہ میں جاری خونریزی کے خلاف احتجاج کیا بلکہ عالمی برادری سے اسرائیل پر سخت اقتصادی اور سیاسی پابندیاں لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان ریلیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین اب محض مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک **بین الاقوامی انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔
آکلینڈ، نیوزی لینڈ میں تاریخی مظاہرہ
نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آکلینڈ کی مرکزی شاہراہوں پر ہزاروں افراد فلسطینی پرچم تھامے نکلے۔ مظاہرین نے نعرے لگائے:
“فری فلسطین “اسرائیل پر پابندیاں لگاؤ اور “غزہ میں نسل کُشی بند کرو” مظاہرین میں بڑی تعداد میں نوجوان، خواتین، انسانی حقوق کے کارکن اور مزدور تنظیموں کے نمائندے شریک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ جیسے امن پسند ملک کے شہری عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک مقامی رہنما نے خطاب میں کہا کہ*”ہم خاموش رہ کر شریک جرم نہیں بن سکتے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کرے تاکہ غزہ میں بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون رُک سکے۔”
برلن، جرمنی میں ریلی اور تاریخی تناظر
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں بھی ایک بڑی ریلی نکالی گئی۔ یہ احتجاج اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ جرمنی اسرائیل کا قریبی اتحادی مانا جاتا ہے۔ تاہم ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر حکومت کو پیغام دیا کہ وہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔
مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: “نسل کُشی ختم کرو” ، “غزہ کے بچوں کو جینے دو” ، “انسانیت سرحدوں سے بالاتر ہے” ان مظاہروں سے یہ واضح ہوا کہ یورپ کے اندر بھی اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
سپین: کھیلوں کے میدان میں احتجاج
اسپین میں ایک بین الاقوامی سائیکلنگ ریس کے دوران اس وقت ہنگامہ ہوا جب اسرائیلی ٹیم کی شرکت پر فلسطین کے حامیوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے نہ صرف پلے کارڈز اٹھائے بلکہ اسرائیلی ٹیم کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا۔اس احتجاج نے ایک نیا سوال اٹھا دیا کہ آیا کھیل اور سیاست کو الگ رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ناقدین کے مطابق جب کھیل کے میدان میں بھی انسانی حقوق کو نظرانداز کیا جائے تو وہاں احتجاج فطری عمل ہے۔
تل ابیب: اندرونی اختلافات کی جھلک
اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی ہزاروں لوگ غزہ میں جنگ بندی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔ دارالحکومت تل ابیب میں ہونے والے مظاہرے میں شریک عوام نے نیتن یاہو حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا:
*“نیتن یاہو! صدر ٹرمپ کو دھوکہ دینا بند کرو”یہ مظاہرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے اپنے عوام بھی حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں اور وہ امن کے خواہاں ہیں۔
عالمی ردعمل اور سیاسی اثرات
ان ریلیوں نے عالمی سیاست میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ مظاہرے صرف غزہ کی صورتحال کا ردعمل نہیں بلکہ اسرائیل پر **عالمی دباؤ کا اظہار ہیں۔ مغربی ممالک کی حکومتوں کو اب اپنے عوامی دباؤ کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اگر احتجاج اسی شدت سے جاری رہا تو ممکن ہے کہ یورپی یونین اور دیگر ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کریں۔
انسانی حقوق کے اداروں کی شمولیت
ان احتجاجات میں مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شامل ہوئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے کارکنوں نے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کے اقدامات کو نسل کُشی کے زمرے میں شامل کرے۔
میڈیا کا کردار
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان مظاہروں کو عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔ نیوزی لینڈ اور جرمنی کے مقامی اخبارات سے لے کر عالمی چینلز تک، ہر جگہ یہ خبریں شہ سرخیوں میں آئیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق میڈیا کی اس توجہ نے ان مظاہروں کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا۔