اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے بعد یورپ کے مزید پانچ ممالک — بیلجیئم، لکسمبرگ، موناکو، اینڈورا اور مالٹا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
بیلجیئم کے وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ علاقے میں مکمل اور آزادانہ رسائی فراہم کی جائے تاکہ امداد پہنچ سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ صورتحال دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
لکسمبرگ کے وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے۔ اسی دوران مالٹا کے وزیراعظم نے وضاحت کی کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مقصد حماس کو تقویت دینا نہیں بلکہ امن کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 اب تک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں — یعنی دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ ممالک فلسطینی ریاست کو جائز مانتے ہیں۔ تاہم اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 65 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ خطہ بڑی حد تک ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں :برطانیہ، کینیڈا کے بعد پرتگال نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا، برطانوی وزیراعظم امن کیلئے پر امید
یورپی رہنماؤں نے اس اقدام کو محض علامتی قرار دینے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیل اور عالمی برادری پر عملی دباؤ ڈالنے کے لیے ہے تاکہ جنگ روکی جا سکے اور مذاکرات کی راہ ہموار ہو۔
اس ہفتے فرانس، برطانیہ، پرتگال اور کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر امریکی انتظامیہ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام حماس کو "انعام” دینے کے مترادف ہے اور امن عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم فلسطینی ریاست کو امن اور ترقی میں شراکت داری کی پیشکش کرتے ہیں، مگر اسرائیل کی جانب سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر اور غزہ پر جاری حملوں نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور ہزاروں شہریوں کی جان لی ہے، جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب امریکا اور اسرائیل نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اسرائیلی مندوب نے اجلاس کو "سرکس” قرار دیا جبکہ امریکی انتظامیہ نے سلامتی کونسل میں ویٹو پاور استعمال کرنے کا عندیہ دیا تاکہ فلسطین کی مکمل رکنیت کو روکا جا سکے۔