اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)کینیڈا جمعہ کی صبح اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران ہونے والے اجتماعی واک آؤٹ میں شامل نہیں ہوا۔
کینیڈا کے سفیر باب رے کے دفتر کا کہنا ہے کہ وہ نیتن یاہو کی تقریر کے دوران اپنی نشست پر بیٹھے رہے جبکہ درجنوں ممالک کے سفارتکار اجلاس ہال سے باہر چلے گئے۔ کینیڈین پریس نے گلوبل افیئرز کینیڈا سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے لیکن تاحال کوئی باضابطہ بیان نہیں ملا۔
اجلاس کی صدارت کرنے والے افسر کو بار بار ہال میں خاموشی کی اپیل کرنی پڑی کیونکہ ترقی پذیر ممالک سمیت کئی وفود اجلاس سے باہر جا رہے تھے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق برطانیہ اور امریکا نے اس تقریر میں اپنے نچلی سطح کے سفارتکار بھیجے۔
اپنی تقریر میں نیتن یاہو نے ان ممالک پر تنقید کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، جن میں کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
انہوں نے کہاآپ کا شرمناک فیصلہ یہودیوں اور دنیا بھر میں معصوم لوگوں کے خلاف دہشت گردی کو بڑھاوا دے گا۔اسرائیل اس وقت غزہ پر بمباری، فلسطینی شہریوں کو بھوک سے دوچار کرنے اور قطر میں حماس مذاکرات کاروں پر حملے جیسے واقعات پر عالمی تنقید اور بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کا سامنا کر رہا ہے۔
کینیڈا ماضی میں بھی اقوامِ متحدہ کے واک آؤٹ میں شامل رہا ہے۔ مارچ 2022 میں روس کے مکمل حملے کے چند دن بعد کینیڈا کی وزیرِ خارجہ جنیوا میں روسی وزیرِخارجہ سرگئی لاوروف کی تقریر کے دوران 40 ممالک کے اجتماعی واک آؤٹ میں شامل ہوئی تھیں۔
نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں حماس کے قبضے میں لیے گئے اسرائیلی یرغمالیوں اور ایران سے لاحق خطرات پر طویل بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں "یہ کام مکمل کرنا ہوگا
انہوں نے کہامغربی رہنما دباؤ میں آ گئے ہوں گے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسرائیل ایسا نہیں کرے گا۔تقریر کے دوران ہال میں شور کی آوازیں بھی گونجتی رہیں جبکہ گیلری میں بیٹھے حامیوں نے تالیاں بجائیں۔
نیتن یاہو کی حکومت عالمی دباؤ، جنگی جرائم کے الزامات اور جنگ کے خاتمے کے مطالبات کا سامنا کر رہی ہے، لیکن وہ مسلسل غزہ میں کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں غزہ کو "جنگ کا آخری محاذ” قرار دیا اور ایران، لبنان، شام اور یمن میں حالیہ اسرائیلی کارروائیوں کا ذکر کیا۔
اسرائیلی حکومت نے نیتن یاہو کی تقریر کو غزہ تک سنانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر نصب کیے اور دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں موبائل فونز پر تقریر نشر کی، تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کے صحافیوں کو اس کا کوئی ثبوت نظر نہیں آیا۔
نیتن یاہو نے ہیبرو میں تقریر کرتے ہوئے ان 20 یرغمالیوں کے نام بھی پڑھے جن کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
دنیا کے 150 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، تاہم امریکا نے اب تک ایسا نہیں کیا اور نیتن یاہو کی حکومت کی حمایت جاری رکھی ہے۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو واضح کیا کہ وہ مغربی کنارے کے الحاق کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسرائیل نے تاحال الحاق کا اعلان نہیں کیا، مگر نیتن یاہو کی کابینہ کے کئی وزراء الحاق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی حکام نے ایک متنازعہ سیٹلمنٹ منصوبے کی منظوری دی ہے جو مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا جسے ناقدین فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔
کینیڈا نے اسی منصوبے کو جواز بنا کر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیرِاعظم مارک کارنی کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت اور حماس دونوں دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے جمعرات کو جنرل اسمبلی سے ویڈیو خطاب کیا کیونکہ امریکا نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہاوقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کرے۔”