اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی باعزت انداز میں ہونی چاہیے اور دہشت گردی کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناگزیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی اس تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے زیر اہتمام 26ویں نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبہ وسائل سے مالامال ہے لیکن ماضی میں ان کا درست استعمال نہیں ہوا۔ ہم نے آغاز ہی سے صوبے کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی اور بہتر مالی نظم و نسق کے ذریعے گزشتہ 19 ماہ میں اربوں روپے اضافی آمدن حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ پن بجلی، گیس اور تیل کے ذخائر کو صنعتی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے، جبکہ سستی توانائی کی فراہمی سے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحت، زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے بھی صوبائی معیشت میں اضافے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں زراعت کے فروغ کے لیے پہلی بار "ماؤنٹین ایگریکلچر پالیسی” متعارف کرائی گئی ہے، گورننس اور شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے 29 سیکٹرز کی ڈیجیٹائزیشن کی جا چکی ہے اور مزید پر کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن قائم رکھنے کے لیے مسلح افواج، پولیس اور عوام نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ افغان مہاجرین کے حوالے سے ان کا مؤقف تھا کہ خیبر پختونخوا نے دہائیوں تک ان کی میزبانی کی ہے لیکن اب ان کی واپسی عزت و وقار کے ساتھ ہونی چاہیے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں خصوصی حصہ دینا ضروری ہے۔ عوامی فلاح کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ کے ذریعے ہر شہری کو مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے، مکان بنانے کے لیے بلاسود قرضے دیے جا رہے ہیں اور نوجوانوں کے لیے 14 ارب روپے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنا کاروبار قائم کرسکیں اور فنی تربیت حاصل کریں۔