اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات کا دوسرا دور مکمل ہو گیا۔ مذاکرات کے دوران قیدیوں کی رہائی کے شیڈول اور اسرائیلی افواج کے ممکنہ انخلا کے طریقہ کار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق یہ بالواسطہ مذاکرات مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہوئے، جن میں ثالثی کا کردار مصر، قطر اور امریکہ نے ادا کیا۔قطر کے وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی ور امریکی سفارتی ٹیم آج ہونے والے تیسرے روز کے مذاکرات میں بھی شریک ہوں گے۔ اس کے علاوہ ترکی کے خفیہ ادارے کے سربراہ **ابراہیم کالن کی قیادت میں ترک وفد بھی بات چیت میں شامل ہو گا۔
حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے مصری میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تنظیم ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے، تاہم اس سے قبل جنگ کے مکمل خاتمے کی بین الاقوامی ضمانت ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ “ہم کسی بھی قیمت پر ایک ایسے معاہدے کو قبول نہیں کریں گے جو جنگ کے دوبارہ آغاز کا خطرہ پیدا کرے۔ ہمیں یہ یقین دہانی چاہیے کہ جارحیت ہمیشہ کے لیے بند ہو گی۔” انہوں نے مزید کہا کہ حماس اسرائیل پر کسی بھی لمحے اعتماد نہیں کر سکتی، اس لیے کسی بھی معاہدے کے لیے ٹھوس اور بین الاقوامی ضمانت ناگزیر ہے۔
ذرائع کے مطابق، منگل کے روز ہونے والے مذاکرات میں دو اہم نکات پر تفصیلی بات چیت کی گئی 1. اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے شیڈول پر اتفاقِ رائے۔2. اسرائیلی فوج کے مرحلہ وار انخلا کے طریقہ کار اور سیکیورٹی انتظامات ،حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کو اسرائیلی افواج کے انخلا سے منسلک کیا جائے، تاکہ کسی بھی فریق کی جانب سے وعدہ خلافی کا امکان نہ رہے۔”
عرب اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے مذاکرات کے دوران درج ذیل نکات کو اپنے بنیادی مطالبات کے طور پر پیش کیا ہے ،غزہ میں مکمل اور مستقل جنگ بندی کا اعلان، تمام اسرائیلی افواج کا غزہ سے مکمل انخلا، غزہ میں انسانی امداد اور ضروری سامان کی بلا رکاوٹ فراہمی ،بے گھر فلسطینیوں کی محفوظ واپسی ، غزہ کی تعمیرِ نو اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی ، قیدیوں کے منصفانہ اور مرحلہ وار تبادلے کا نظام
امریکی اور قطری کردار
مذاکرات میں امریکہ کے خصوصی مشرقِ وسطیٰ نمائندے اسٹیو وٹکوف اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی شریک ہیں، جنہوں نے شرم الشیخ پہنچ کر مذاکراتی عمل میں شمولیت اختیار کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ یہ مذاکرات ایک مستقل اور قابلِ عمل جنگ بندی کی بنیاد بن سکیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے جنگ کے خاتمے کی ضمانت کا مطالبہ دراصل تنظیم کے اس خدشے کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل ممکنہ معاہدے کے بعد دوبارہ کارروائیاں شروع کر سکتا ہے۔مصر اور قطر دونوں ممالک اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا معاہدہ طے پائے جو نہ صرف جنگ بند کرے بلکہ قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے۔
مصر میں جاری یہ بات چیت خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد، ماضی کی وعدہ خلافیوں اور سیاسی دباؤ کے باعث فوری پیش رفت کا امکان محدود ہے۔تاہم آج ہونے والا مذاکراتی مرحلہ اس سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے، جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید دو برس سے جاری خونریز جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔