اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) کینیڈا کے صوبہ برٹش کولمبیا کے پُر سکون مگر تنہائی زدہ علاقے فاریسٹ گروو میں ایک ایسی کہانی نے جنم لیا ہے جو صرف ایک عورت کی گمشدگی نہیں بلکہ انسانی بے حسی، نظامی کمزوری اور تنہائی کی اذیت کا مظہر ہے۔
جینیفر پروونکال تین بچوں کی ماں فروری میں اپنے گھر سے غائب ہوئیں، مگر المیہ یہ ہے کہ اُن کی گمشدگی کی اطلاع پولیس تک پہنچنے میں تقریباً تین ماہ لگ گئے۔یہ تاخیر خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک عورت، جو اپنی فیملی، بہن اور بچوں سے رابطے میں رہتی تھی، اگر اچانک غائب ہو جائے تو آخر کسی کو اتنا وقت کیوں لگا یہ احساس کرنے میں کہ وہ کہاں ہے؟ اُن کے شوہر، تھامس بولڈنگ، کا کہنا ہے کہ جینیفر نے ماضی میں بھی کچھ وقت کے لیے گھر چھوڑا تھا — مگر اس مرتبہ معاملہ مختلف ثابت ہوا۔ جب وہ واپس نہیں آئیں، اور اُن کا پرس، ذاتی سامان اور فون سب گھر پر رہ گئے، تو شک گہرا ہونا ہی تھا۔
اب جبکہ آر سی ایم پی (کینیڈین پولیس) نے تصدیق کی ہے کہ واقعے میں فاؤل پلے — یعنی کسی مجرمانہ عمل — کا شبہ ہے، تو یہ کیس محض ایک گمشدگی نہیں بلکہ ممکنہ قتل یا اغوا کی سمت بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ پولیس نے کتے، تفتیشی ٹیمیں اور کرائم یونٹ کو متحرک کیا ہے، مگر ابھی تک کوئی واضح سراغ نہیں ملا۔اس معاملے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جینیفر اور اُن کے شوہر کی زندگی "آف گرِڈ” تھی یعنی وہ جدید سہولیات سے دُور، بغیر موبائل اور انٹرنیٹ کے رہتے تھے۔ یہ طرزِ زندگی آزادی کی علامت ضرور ہو سکتا ہے، مگر ایسے حالات میں کسی خطرے یا ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
جینیفر کی بہن جوہان پروونکال نے درست کہاکہ "میری بہن کبھی یوں لاپتہ نہیں ہو سکتی تھی کہ ہمیں خبر تک نہ ہو۔ وہ ہمیں پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی۔”یہ الفاظ صرف ایک بہن کے نہیں، بلکہ ہر اُس خاندان کے احساسات ہیں جن کے پیارے بغیر کوئی نشان چھوڑے گم ہو جاتے ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی معاشرے کی انسانیت کا امتحان اُن لمحات میں ہوتا ہے جب کوئی تنہا، بھولا یا لاپتہ ہو جائے — اور نظام، میڈیا یا عوام کی توجہ اُس وقت جاگے جب بہت دیر ہو چکی ہو۔
اب وقت آ گیا ہے کہ کینیڈین حکام نہ صرف جینیفر کے کیس میں شفاف تفتیش کو یقینی بنائیں بلکہ دیہی و تنہائی زدہ علاقوں میں رہنے والے افراد کی حفاظت کے لیے بھی کوئی واضح پالیسی بنائیں۔ کیونکہ جینیفر پروونکال کی گمشدگی ایک فرد کا سانحہ نہیں، یہ ایک اجتماعی سوال ہے:
—