اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)البرٹا میں اساتذہ کی صوبہ گیر ہڑتال تیسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے، جس کے باعث 51 ہزار اساتذہ اور 7 لاکھ 50 ہزار طلبہ کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ جمعرات کو ہزاروں اساتذہ اور ان کے حامیوں نے ایڈمنٹن میں صوبائی اسمبلی کے باہر بھرپور احتجاج کیا۔
مظاہرین نے نعرے لگائے، ڈھول بجائے اور "احتجاجی آلو” اسمبلی کے دروازے پر پھینک دیے۔ یہ آلو وزیرِاعلیٰ ڈینیئل سمتھ کے اس بیان کے جواب میں علامتی طور پر پھینکے گئے کہ "آلو چھیلنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں”، جس سے انہوں نے اساتذہ پر زیادہ لچک دکھانے پر زور دیا تھا۔
پریمیئر ڈینیئل سمتھ نے کہا ہے کہ اگر اگلے چند دنوں میں اساتذہ کی تنظیم اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، تو پیر کے روز "بیک ٹو اسکول ایکٹ” کے تحت قانون سازی کر کے تمام اساتذہ کو زبردستی واپس کلاسوں میں بھیج دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہڑتال نے طلبہ اور والدین دونوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں اور اب حکومت مزید انتظار نہیں کرسکتی۔
حکومت نے 12 فیصد تنخواہوں میں اضافے اور 3 ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی کی پیشکش کی ہے، مگر اساتذہ تنظیم نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کلاسوں میں ہجوم اور خصوصی ضروریات والے طلبہ کے لیے سہولیات کی کمی پر زور دیا ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ نیٹ ہارنر نے کہا کہ اگر اساتذہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو حکومت ہر وقت بات چیت کے لیے حاضر ہے۔ تاہم فی الحال کوئی باضابطہ ملاقات طے نہیں ہوئی۔
اپوزیشن لیڈر ناہید نینشی نے حکومت کے مجوزہ قانون کو ’’اساتذہ، مزدوروں اور جمہوری حقوق پر حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
اسی روز اسمبلی میں صوبے کی ’’تخت نشینی تقریر‘‘ بھی ہوئی، جس میں لیفٹیننٹ گورنر سلمیٰ لخفانی نے حکومت کی ترجیحات پیش کیں۔ ان میں امریکہ کے ساتھ تجارتی معاملات میں البرٹا کی کامیابی، وفاقی پالیسیوں پر تنقید اور صوبے کے خودمختار اختیارات کے تحفظ پر زور دیا گیا۔