اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) غزہ کی خونچکاں سرزمین پر ایک نیا سیاسی باب رقم ہونے جا رہا ہے۔
قاہرہ میں منعقد ہونے والے اہم اجلاس کے بعد حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں نے غزہ کا انتظام ایک ٹیکنو کریٹک کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا مظہر ہے کہ فلسطینی قیادت اپنے داخلی اختلافات کو ختم کر کے قومی وحدت اور پائیدار امن کی راہ پر گامزن ہونا چاہتی ہے۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی ہٹ دھرمی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ دو ہفتے گزرنے کے باوجود غزہ میں بھوک، پیاس اور طبی امداد کی کمی** شدت اختیار کر چکی ہے۔ رفح بارڈر کی بندش اور امدادی سامان کی ترسیل میں دانستہ رکاوٹ نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت سمیت 41 تنظیموں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر قحط زدہ غزہ تک امداد پہنچنے سے روک رہا ہے۔
حماس کا یہ فیصلہ کہ وہ غزہ کے انتظام کو ایک غیر جماعتی ٹیکنوکریٹک کمیٹی کے حوالے کرے گی، نہ صرف **سنجیدہ سیاسی بلوغت کی علامت ہے بلکہ اس سے عالمی سطح پر فلسطینی موقف کو مزید اخلاقی جواز حاصل ہوگا۔ یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ فلسطینی عوام اقتدار نہیں بلکہ امن اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔دوسری جانب، ترکی کے صدر کا یہ کہنا کہ امریکہ اور دیگر ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرے بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حماس جنگ بندی پر عمل کر رہی ہے ، لیکن اسرائیل کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیاں خطے کو ایک نئی تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری محض بیانات سے آگے بڑھے۔ اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسرائیل پر واضح سفارتی اور معاشی دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ امداد کی ترسیل بحال ہو، اور غزہ کے عوام کو کم از کم سانس لینے کا حق ہے ،غزہ کے عوام کا فیصلہ واضح ہے — وہ امن، یکجہتی اور تعمیر نو کے خواہاں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہوگی یا پھر ایک بار پھر خاموش تماشائی بنے گی؟