اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈین مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان ایک مرتبہ پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ شمالی امریکہ کے دو قریبی تجارتی شراکت داروں کے درمیان تعلقات کس قدر نازک توازن پر قائم ہیں۔
یہ فیصلہ کسی پالیسی تجزیے یا اقتصادی ضرورت کا نتیجہ نہیں بلکہ بظاہر سیاسی ردعمل اور ذاتی خفگی کا مظہر معلوم ہوتا ہے۔ٹرمپ نے یہ اقدام اونٹاریو حکومت کے ایک اشتہار کے جواب میں کیا، جس میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے "آزاد تجارت” سے متعلق خیالات کو پیش کیا گیا تھا۔ اشتہار میں یہ تاثر دیا گیا کہ ریگن خود ٹرمپ طرزِ پالیسی یعنی پروٹیکشنزم” (تحفظاتی تجارتی پالیسیاں) کے مخالف تھے۔ ٹرمپ کے نزدیک یہ “جعلی” اور “گمراہ کن” اشتہار تھا، جس کے نتیجے میں انہوں نے فوری طور پر **کینیڈا پر معاشی دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے کینیڈا کے ساتھ تعلقات میں ذاتی ناراضی یا سیاسی تناؤ کے تحت تجارتی اقدامات کیے ہوں۔ ان کے سابقہ دورِ صدارت میں بھی اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف عائد کیے گئے تھے، جنہیں بعد ازاں طویل مذاکرات کے بعد جزوی طور پر ختم کیا گیا۔ اب ایک بار پھر وہی طرزِ عمل دہراتے ہوئے شمالی امریکی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔
کینیڈا کی جانب سے اس وقت کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم اپوزیشن رہنما پیئر پوئیلیور نے فوری طور پر وزیراعظم مارک کارنی کو ذمہ دار ٹھہرایا، یہ کہتے ہوئے کہ اگر حکومت نے بروقت مذاکرات مکمل کر لیے ہوتے تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک صوبائی حکومت کے اشتہار پر پوری قومی معیشت کو خطرے میں ڈال دینا کسی بھی صورت میں دانشمندانہ رویہ کہا جا سکتا ہے؟
تجارتی تعلقات کسی شخصی انا یا وقتی اشتعال کے تابع نہیں ہونے چاہییں۔ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان اربوں ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے، جس کا براہِ راست اثر لاکھوں ملازمین، کاروباروں اور صارفین پر پڑتا ہے۔ ایسے میں 10 فیصد ٹیرف نہ صرف کینیڈین برآمدات کو نقصان پہنچائے گا بلکہ امریکی مارکیٹ میں بھی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا جس کا بوجھ آخرکار امریکی عوام پر ہی پڑے گا۔
ہ فیصلہ بظاہر سیاسی علامت (political signal) ہے — ایک ایسا پیغام جو ٹرمپ اپنے ووٹرز کو دینا چاہتے ہیں کہ وہ “امریکی مفاد” کے لیے سخت مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔ مگر اس قسم کی علامتی پالیسیاں طویل المدتی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ اگر اوٹاوا اور واشنگٹن کے درمیان اعتماد مزید کمزور ہوا تو نہ صرف تجارتی شراکت متاثر ہوگی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو سکتا ہے۔اب ذمہ داری کینیڈا کی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ردعمل کے بجائے تدبر سے کام لے۔ اشتعال انگیزی کے بجائے مذاکرات اور سفارت کاری کے راستے کو ترجیح دینا وقت کی ضرورت ہے۔ کینیڈا کو چاہیے کہ وہ اس تنازع کو نظامی سطح پر حل کرے، نہ کہ سیاسی سطح پر۔آخرکار، مضبوط قومیں وہ نہیں ہوتیں جو ہر الزام کا جواب سختی سے دیں، بلکہ وہ ہوتی ہیں جو **سمجھداری، برداشت اور حکمتِ عملی** سے اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرتی ہیں۔ ٹرمپ کا یہ تازہ قدم وقتی طور پر دھچکا ضرور ہے، مگر اس کے مقابلے میں **کینیڈا کا سنجیدہ اور مستقل مزاج ردعمل** ہی دونوں ممالک کے تعلقات کو بحال رکھنے کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔