چیٹ جی پی ٹی صارفین میں خودکشی کے رجحانات بڑھنے لگے،ماہرین نفسیات کا انکشاف

ارد ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) ماہر ین نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) چیٹ بوٹس سے حد سے زیادہ بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔

جس سے لوگ سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن ہوتے جا رہے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اوپن اے آئی کی جانب سے جاری ایک بلاگ پوسٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہر ہفتے دس لاکھ سے زائد چیٹ جی پی ٹی صارفین ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جن میں ممکنہ خودکشی کے ارادے یا منصوبے کے واضح اشارے پائے جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد میں نہ صرف ذہنی دباؤ اور بے چینی بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے بلکہ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے ایک گفتگو میں کہا کہ مصنوعی ذہانت کے درست اور محدود استعمال کے کئی فوائد ہیں، تاہم اس کا غیر ضروری اور حد سے زیادہ استعمال خطرناک نتائج پیدا کر رہا ہے۔ ان کے مطابق لوگ اب پہلے کی طرح آپس میں بات چیت نہیں کرتے، جس سے دماغی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے۔ اگر دماغ کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ اپنی استعداد کھو دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بچے جسمانی اور ذہنی تربیت حاصل کرتے تھے، مگر آج کے دور میں ہر کام مشینوں اور اب اے آئی کے ذریعے ہو رہا ہے، جس سے دماغی قوت متاثر ہو رہی ہے۔ مسلسل بیٹھے رہنے اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی سے خوشی پیدا کرنے والے کیمیکل ڈوپامین کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے، جس سے افسردگی بڑھتی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی نے کہا کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے ساتھ بات چیت میں احساس، ہمدردی یا سچائی نہیں ہوتی۔ جب کوئی شخص اپنی پریشانی کسی انسان سے شیئر کرتا ہے تو جذبات شامل ہوتے ہیں، لیکن چیٹ بوٹس کی مشینی گفتگو انسان کو مزید تنہائی اور مایوسی میں دھکیل دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اے آئی پر ضرورت سے زیادہ انحصار غلط مشوروں کا باعث بھی بنتا ہے، کیونکہ مشین انسانی جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس کے نتیجے میں بولنے کی مہارت اور الفاظ کا ذخیرہ کم ہوتا ہے، جو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کو بڑھا دیتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اے آئی کا بے جا استعمال جسمانی صحت پر بھی اثر ڈالتا ہے، جیسے نیند کی کمی، وزن میں اضافہ، آنکھوں پر نیلی روشنی کے اثرات، چڑچڑاپن اور سکرین کے ساتھ انحصار میں اضافہ۔ ان کے مطابق ہمیں روزانہ دو گھنٹے سے کم سکرین ٹائم رکھنا چاہیے، غیر ضروری چیٹ بوٹس کے استعمال سے گریز اور جسمانی سرگرمیوں میں وقت گزارنا چاہیے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر عاصمہ احمد نے کہا کہ چیٹ بوٹس کے کچھ فائدے ضرور ہیں لیکن ان کا حد سے زیادہ استعمال لت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لوگ فوری جواب حاصل کرنے کے عادی بن گئے ہیں، جس سے وہ خود سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب لوگ معمولی علامات پر بھی ڈاکٹر کے بجائے اے آئی سے مشورہ لیتے ہیں، جو خطرناک رجحان ہے۔ اس سے سماجی تعلقات کمزور ہو رہے ہیں، لوگ ایک ساتھ بیٹھے بھی ہوں تو بات چیت کے بجائے موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔

ڈاکٹر عاصمہ احمد نے انکشاف کیا کہ کچھ لوگ چیٹ بوٹس کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ انہیں نام دے کر ان سے جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں، حالانکہ مصنوعی ذہانت میں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق یہ رجحان خود پسندی (نارسیسزم) کو بھی فروغ دے رہا ہے، جس میں انسان صرف اپنی بات سننا اور اپنی رائے کو درست سمجھنا پسند کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کو فوری طور پر ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، ورنہ یہ رویہ نفسیاتی عارضے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانوں کا کوئی متبادل نہیں، جذباتی رشتہ صرف انسان سے قائم ہو سکتا ہے، مشین سے نہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔