اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)البرٹا کی صوبائی حکومت نے نیا مسودۂ قانون پیش کیا ہے جس کا مقصد شہریوں کے لیے کسی بھی عوامی سوال کو ریفرنڈم کے لیے بیلٹ پر لانے کے عمل کو مزید آسان بنانا ہے، چاہے وہ سوال صوبے کی کینیڈا سے علیحدگی جیسا حساس موضوع ہی کیوں نہ ہو۔ بل کے مطابق وہ عدالتی کارروائی ختم کر دی جائے گی جو اس وقت ایک علیحدگی پسند گروپ کی ریفرنڈم درخواست پر جاری ہے، تاہم وزیرِ انصاف مِکی امیری کا کہنا ہے کہ یہ بل خاص طور پر اس مقدمے کے لیے نہیں لایا گیا۔ اس کے باوجود علیحدگی کے حامی گروہ کو دوبارہ درخواست جمع کرانے کا موقع ملے گا اور اس پر کوئی فیس بھی نہیں لی جائے گی۔
صوبائی حکومت کے مطابق اس بل کا تعلق اس دوسری درخواست سے نہیں ہے جو حال ہی میں منظور ہوئی ہے اور جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ البرٹا کو کینیڈا کا حصہ رہنا چاہیے۔ یہ درخواست سابق ڈپٹی پریمیئر تھامس لوکزک کی جانب سے جمع کرائی گئی تھی جس نے مطلوبہ دستخط حاصل کر لیے ہیں اور اب اسے مزید کارروائی کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔
علیحدگی کے حامی گروپ Alberta Prosperity Project نے جو سوال تجویز کیا تھا اس کا متن یہ تھا کہ کیا البرٹا کینیڈا سے الگ ہو کر ایک آزاد خودمختار ملک بن جائے۔ اس سوال نے صوبے میں سیاسی بحث کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اس کے برعکس لوکزک کی درخواست صوبے کی اکثریتی رائے کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ البرٹا کینیڈا کا حصہ رہنے کی پالیسی سرکاری طور پر اختیار کی جائے۔
مسودۂ قانون کے تحت ریفرنڈم سے متعلق اہم اختیارات چیف الیکٹورل آفیسر سے لے کر وزیرِ انصاف کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ امیری کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا انتخابی افسر کی ذمہ داری نہیں کہ عوام کون سا سوال پوچھ سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر کسی سوال پر آئینی وضاحت درکار ہو تو وہ عدالت کو بھیجا جا سکے گا لیکن اس دوران ریفرنڈم کے عمل کو روکا نہیں جائے گا۔ ان کے مطابق اس نظام کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کی ریفرنڈم مہم پر انحصار نہ کرے اور اگر علیحدگی کے حامی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس عوامی حمایت موجود ہے تو یہ ان کے لیے اسے ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے۔
اس سال کے آغاز میں حکومت پہلے ہی ریفرنڈم کے قواعد میں بڑی نرمی کر چکی ہے۔ دستخطوں کی تعداد کم کر دی گئی تھی اور ان کے حصول کے لیے مقررہ وقت میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اب مختلف گروہوں کے لیے ریفرنڈم مہم چلانا پہلے سے زیادہ آسان ہو گیا ہے۔
نئے قانون میں سیاسی جماعتوں کے ناموں سے متعلق پابندیاں بھی شامل ہیں۔ چند مخصوص الفاظ جیسے conservative، liberal، green، reform، democratic اور wildrose نئی سیاسی جماعتوں کے ناموں میں استعمال نہیں کیے جا سکیں گے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام ووٹرز کو الجھن سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے، زیرا بعض گروہ جان بوجھ کر ایسے نام استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو پرانی جماعتوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
بل میں مزید تبدیلیاں بھی تجویز کی گئی ہیں جن میں صوبائی انتخابات کے امیدواروں کے لیے نامزدگی کے دستخط 25 سے بڑھا کر 100 کرنا اور یہ شرط شامل ہے کہ کوئی ووٹر صرف ایک ہی امیدوار کے نامزدگی فارم پر دستخط کر سکے گا۔ حکومت کے مطابق یہ اقدامات ’’لانگ بیلٹ‘‘ جیسے احتجاجی منصوبوں کو روکنے اور صرف سنجیدہ امیدواروں کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ وزیرِ انصاف کو ان کے سرکاری فرائض کے دوران کیے گئے اقدامات پر لاء سوسائٹی کی جانب سے پابندیوں سے استثنیٰ بھی دیا جائے گا، اگرچہ سرکاری فرائض کی واضح تعریف قانون میں شامل نہیں کی گئی۔