11
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ سڈنی کے مشہور بوندی بیچ پر ہونے والی ہلاکت خیز اجتماعی فائرنگ ایک اسلامک اسٹیٹ سے متاثر دہشت گردانہ حملہ تھی۔
یہ واقعہ ہفتے کے روز ہنوکا کی تقریب کے دوران پیش آیا، جس میں 15 افراد جان سے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔آسٹریلوی وفاقی پولیس کمشنر کرسی بیرٹ نے منگل کو بتایا کہ تفتیش کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جو حملہ آوروں کے شدت پسند نظریات کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق حملہ آوروں کی تحویل میں لی گئی گاڑی سے داعش کے جھنڈے برآمد ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کارروائی انتہا پسندانہ سوچ سے متاثر تھی۔ آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے بھی نیوز کانفرنس میں کہا کہ حکومتی مؤقف ٹھوس شواہد پر مبنی ہے اور اس واقعے کو دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔حکام کے مطابق حملے میں ملوث مشتبہ افراد باپ اور بیٹا تھے، جن کی عمریں بالترتیب 50 اور 24 سال تھیں۔ بڑے مشتبہ شخص کو واقعے کے دوران پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا، جبکہ اس کا بیٹا شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم عمر مشتبہ شخص کے نام رجسٹرڈ ایک گاڑی سے دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا ہے۔
اتوار کے روز پیش آنے والے اس سانحے کے بعد اب بھی 25 افراد اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں سے 10 کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ زخمیوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ جاں بحق افراد کی عمریں 10 سال سے 87 سال کے درمیان تھیں، جو اس وقت تقریب میں شریک تھے جب اچانک فائرنگ شروع ہوئی۔
واقعے کے دوران ایک شہری نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک حملہ آور کو قابو میں کر کے اس سے اسلحہ چھین لیا، جس کی ویڈیو بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی سامنے آئی۔ حکام کے مطابق اس اقدام سے مزید جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔نیوساؤتھ ویلز کے پولیس کمشنر مال لینن کے مطابق مشتبہ افراد نے گزشتہ ماہ فلپائن کا سفر بھی کیا تھا، جس کے مقاصد اور وہاں موجود ممکنہ روابط کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس انکشاف کے بعد یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ حملہ آوروں کو اسلحہ اور دیگر وسائل تک رسائی کیسے حاصل ہوئی۔وزیر اعظم انتھونی البانیز اور مختلف ریاستی رہنماؤں نے واقعے کے بعد آسٹریلیا کے پہلے سے موجود سخت اسلحہ قوانین کو مزید سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اصلاحات 1996 میں پورٹ آرتھر میں ہونے والے قتل عام کے بعد سب سے بڑی ممکنہ تبدیلیاں سمجھی جا رہی ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ بڑے مشتبہ شخص کے پاس قانونی طور پر چھ ہتھیار موجود تھے۔حملے کے بعد آسٹریلیا میں یہودی برادری کے تحفظ اور بڑھتی ہوئی سام دشمنی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ عوام کے تحفظ اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔