اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان طالبان کی جانب سے کافی لاجسٹک اور آپریشنل مدد ملتی رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان نے دہشت گرد گروہوں کے لیے ایسا ماحول قائم رکھا ہوا ہے جو دوسرے رکن ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق دولت اسلامیہ عراق و شام خراسان (داعش-کے) کی افغان موجودگی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑا خطرہ ہے اور ٹی ٹی پی کو بھی طالبان کی طرف سے کافی تعاون حاصل رہا ہے۔ سلامتی کونسل نے افغان طالبان کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ ان کا ملک سرحد پار تشدد کے لیے استعمال نہیں ہو رہا، اور خبردار کیا کہ پڑوسی ممالک افغانستان کو علاقائی عدم تحفظ کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرحد پار حملوں کے نتیجے میں فوجی تصادم، ہلاکتیں اور دو طرفہ تجارت میں خلل پڑا ہے، اور پاکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہیں بند ہونے کی وجہ سے افغان معیشت کو روزانہ تقریباً ایک کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے حملوں کے دائرہ کار کو بڑھایا ہے، جبکہ طالبان حکام یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ملک میں کسی دہشت گرد گروہ کی موجودگی نہیں، جو قابل اعتماد نہیں سمجھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے بعض اعلیٰ عہدیدار ٹی ٹی پی کے حامی ہیں جبکہ دیگر اسے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ تاریخی تعلقات کی وجہ سے طالبان کے پاس ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی ذکر ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین سے پاکستان میں متعدد ہائی پروفائل حملے کیے ہیں، جو کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کے لیے سب سے بڑا فوری چیلنج ہیں۔ 2025 میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد 600 سے تجاوز کر چکی ہے، اور جنوری میں ٹی ٹی پی نے فوجی ملکیت والے کاروبار بھی اپنے اہداف میں شامل کیے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں، ہائی پروفائل گرفتاریاں، اور داعش خراسان کے ترجمان سلطان عزیز اعظم کی گرفتاری سے داعش خراسان کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔