19
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) مونٹریال کے ایک گروسری اسٹور سے سانتا کلاز اور اس کے ’’الفاظ‘‘ کی وردی میں ملبوس
افراد کا تین ہزار ڈالر مالیت کا سامان لے جانا بظاہر ایک عجیب و غریب اور فلمی واقعہ لگتا ہے، مگر درحقیقت یہ جدید سرمایہ دارانہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری، مہنگائی اور عوامی بے بسی کی ایک علامت بن چکا ہے۔یہ گروہ خود کو “روبنز آف دی ایلیز” کہتا ہے، جو تاریخی کردار رابن ہُڈ کی یاد دلاتا ہے — وہ کردار جو امیروں سے لے کر غریبوں میں بانٹنے کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس گروہ نے نہ صرف چوری کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اسے ’’عظیم فوڈ ڈرائیو‘‘ اور سیاسی احتجاج قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی فلاحی عمل تھا یا قانون شکنی کو رومانوی رنگ دینے کی کوشش؟،قانون کی نظر میں جرم، عوام کی نظر میں خدمت؟
پولیس کے مطابق یہ واقعہ واضح طور پر ایک جرم ہے۔ چوری، چاہے کسی بھی نیت سے کی جائے، قانون میں ناقابلِ قبول ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر عوامی ردِعمل اس کے برعکس نظر آیا، جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے اس اقدام کو سراہا۔ یہی وہ تضاد ہے جس کی نشاندہی ماہرِ سیاسیات مارک آندرے سیر نے کی — ریاستی ادارے اسے جرم کہتے ہیں جبکہ عوام اسے قابلِ فہم بلکہ بعض صورتوں میں جائز سمجھ رہے ہیں۔یہ تضاد اس بات کی علامت ہے کہ عوام کا اداروں پر اعتماد کمزور ہو چکا ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے، خوراک کی قیمتیں دو سال کی بلند ترین سطح پر ہیں، اور بڑی کارپوریشنز ریکارڈ منافع کما رہی ہیں، تو قانون کی اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔
مہنگائی، بھوک اور منافع
اعداد و شمار واضح ہیں: کینیڈا میں مجموعی افراطِ زر 2.2 فیصد رہی، مگر خوراک کی قیمتیں 4.7 فیصد بڑھ گئیں۔ اس فرق کا بوجھ براہِ راست عام شہری پر پڑتا ہے، خاص طور پر ان خاندانوں پر جو پہلے ہی خوراک کی عدم تحفظ (Food Insecurity) کا شکار ہیں۔ریٹیل چین میٹرو کا موقف بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ قیمتیں عالمی سپلائی چین، اجناس کی قیمتوں اور بین الاقوامی تجارتی حالات سے جڑی ہوتی ہیں، اور یہ کہ وہ لاکھوں ڈالر کی فوڈ بینک امداد بھی فراہم کرتی ہے۔ مگر عوام کے لیے یہ وضاحتیں اس وقت بے معنی ہو جاتی ہیں جب ان کے گھروں میں فریج خالی ہو۔
تہوار، علامت اور پیغام
اس واقعے کو ’’غیر پرتشدد، تہواری اور علامتی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ سانتا کلاز کا انتخاب محض اتفاق نہیں بلکہ ایک طاقتور علامت ہے — خوشی، تحفے اور سخاوت کی علامت۔ مگر جب یہی علامت چوری کے ساتھ جڑ جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے ،کیا یہ نظام کے خلاف بغاوت ہے یا اخلاقی سرحدوں کو مٹانے کا خطرناک رجحان؟
یہ واقعہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم محض چوری یا قانون شکنی پر نہیں بلکہ اس کے **پسِ منظر** پر غور کریں۔ اگر معاشرہ اس نہج پر پہنچ جائے کہ لوگ جرم کو انصاف سمجھنے لگیں، تو اصل ناکامی افراد کی نہیں بلکہ نظام کی ہوتی ہے۔ریاست، کارپوریشنز اور سماجی اداروں کو اس واقعے کو محض ایک پولیس کیس سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے ایک انتباہ کے طور پر لینا چاہیے — کہ بھوک، مہنگائی اور عدم مساوات اگر اسی طرح بڑھتی رہیں تو ’’سانتا‘‘ صرف بچوں کی کہانیوں تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ احتجاج کی علامت بن جائیں گے۔