5
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) گالی گلوچ کو عموماً ایک ناپسندیدہ، غیر مہذب اور معاشرتی طور پر معیوب عمل سمجھا جاتا ہے، تاہم ایک نئی سائنسی تحقیق نے اس تصور کو جزوی طور پر چیلنج کر دیا ہے۔
معروف تحقیقی جریدے امیریکن سائیکولوجسٹ میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض حالات میں گالیاں بکنا انسان کی کارکردگی اور ذہنی مضبوطی میں اضافہ کر سکتا ہے۔تحقیق کے مطابق گالی گلوچ ایک ایسا طریقہ ہے جو جسمانی طور پر کسی اضافی توانائی یا کیلوریز کے استعمال کے بغیر انسان کو مشکل حالات میں بہتر کارکردگی دکھانے میں مدد دیتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ جب انسان کسی جسمانی یا ذہنی چیلنج کا سامنا کرتا ہے تو گالی دینا دماغی دباؤ کو کم کرنے اور خود پر عائد نفسیاتی پابندیوں کو توڑنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر رچرڈ اسٹیفنز کے مطابق، بہت سے افراد شعوری یا لاشعوری طور پر خود کو پوری طاقت سے کام کرنے سے روک لیتے ہیں۔ گالی گلوچ ایک طرح سے جذباتی اخراج (Emotional Release) کا کردار ادا کرتی ہے، جو انسان کو وقتی طور پر خوف، درد یا تھکن سے اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے لمحات میں گالیاں دماغ کے اُن حصوں کو متحرک کرتی ہیں جو حوصلہ، جرات اور مزاحمت سے تعلق رکھتے ہیں۔
تحقیق کے دوران شرکاء کو مختلف جسمانی سرگرمیوں اور دباؤ والے ٹاسک دیے گئے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ جن افراد کو گالیاں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی، انہوں نے نسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی اور زیادہ دیر تک مزاحمت کی۔ محققین کے مطابق یہ اثر خاص طور پر اُس وقت نمایاں ہوتا ہے جب انسان خود کو کسی مشکل یا تکلیف دہ صورتحال میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔
تاہم ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس تحقیق کا مقصد گالی گلوچ کو فروغ دینا نہیں بلکہ انسانی نفسیات کو بہتر طور پر سمجھنا ہے۔ ان کے مطابق گالیوں کا استعمال سیاق و سباق، ماحول اور معاشرتی حدود کے اندر ہی ہونا چاہیے، کیونکہ بے جا اور مسلسل گالی گلوچ سماجی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔یہ تحقیق انسانی رویوں کے بارے میں ایک نیا زاویہ پیش کرتی ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بعض اوقات ناپسندیدہ سمجھے جانے والے رویے بھی مخصوص حالات میں غیر متوقع فوائد رکھ سکتے ہیں۔