12
ارد و ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان عالمی سفارت کاری میں ایک غیر معمولی اور حساس پیش رفت ہے۔
، جس کے دور رس سیاسی اور جغرافیائی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ صومالی لینڈ، جو 1991 سے خود کو صومالیہ سے الگ ایک خودمختار ریاست قرار دیتا چلا آ رہا ہے، اب تک عالمی سطح پر رسمی اعتراف سے محروم تھا۔ اسرائیل کا یہ قدم نہ صرف افریقی سیاست بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے اتحادوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب خطہ پہلے ہی غزہ جنگ، فلسطینی مسئلے اور ابراہیم معاہدوں کے باعث شدید سفارتی دباؤ کا شکار ہے۔ صومالی لینڈ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا قیام محض دوطرفہ معاملہ نہیں بلکہ اسے اسرائیل کی وسیع تر حکمتِ عملی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اور عالمی تنہائی کو کم کرنا ہے۔ صومالی لینڈ کی جانب سے ابراہیم معاہدوں میں شمولیت کی خواہش بھی اسی تناظر میں معنی خیز ہے۔
تاہم اس فیصلے نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ عالمی برادری کی اکثریت اب بھی صومالی لینڈ کو صومالیہ کا حصہ تصور کرتی ہے اور اقوام متحدہ میں اس کی کوئی علیحدہ حیثیت تسلیم شدہ نہیں۔ اسرائیل کا یہ اقدام بین الاقوامی اصولِ خود ارادیت اور ریاستی خودمختاری پر ایک نئی بحث چھیڑ سکتا ہے۔ اسرائیل کے اندر سے بھی تنقید سامنے آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ فیصلہ فلسطینی ریاست کے حوالے سے اسرائیل کے دیرینہ مؤقف کو کمزور کر سکتا ہے۔
صومالی لینڈ کے لیے یہ اعتراف بلاشبہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، مگر اس کے اثرات خطے میں عدم توازن اور نئے تنازعات کو جنم دینے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پیش رفت کو جذبات کے بجائے بین الاقوامی قانون، علاقائی استحکام اور امن کے اصولوں کی روشنی میں پرکھے، تاکہ افریقہ کے ہارن خطے میں کسی نئی کشیدگی سے بچا جا سکے۔