تحریر ۔عابد علی
یہ لوگ ہم سے ڈرتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ ڈاکٹر، انجینئر بن گئے ہیں تو کہیں ہم پارلیمنٹ میں نہ آ جائیں اور ہم میں سے کوئی وزیر یا وزیر اعظم نہ بن جائے، انہیں ہمارا ڈر ہے جسکے باعث یہ ایسا کر رہے ہیں،،،،، یہ وہ الفاظ تھے خواجہ سراوں کی لیڈر نایاب اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہی تھی اور مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ وہ صحیح کہہ رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کا قانون بن چُکا ہے کہ کمزور کو دبایا جائے، گلی محلوں میں قصبوں میں دیکھ لیں ہر کوئی کمزور کوہی دباتا ہے جب طاقتور کی باری آتی ہے تو کوئی لندن بھاگ جاتا ہے تو کوئی ڈیل کر لیتا ہے اور یہ تو پھر خواجہ سرا ہیں جنکی ایوان میں کوئی نمائندگی نہیں، جنکو آج تک پہچان نہ مل سکی، جنکو نہ نوکری ملتی ہے نہ کوئی انہیں گلی محلے میں بستا دیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ ناچ گانا کرتے ہیں اور وہ مظلوم جنہیں اُنکے سگے ماں باپ قبول نہیں کرتے وہ مذہبی طبقوں کے مطابق حرام ہے، کسی کا حق کھا جائیں وہ حرام نہیں، جھوٹ بولیں حرام نہیں، مذہب میں سیاست کریں، حرام نہیں، اسلام کے نام پر چوراہے بند کریں، عوام کو تنگ کریں، حرام نہیں، قرآن کا علم بیچیں حرام نہیں، مسجد کا چندہ کھا جائیں وہ حرام نہیں البتہ ایک ایسا طبقہ جس کو ہم نے شناخت ہی ناچ گانے کی دے دی ہے وہ حرام ہے کیونکہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا،انہیں دبانا چاہتا ہے اسلئے وہ حرام ہے۔ انہی ساری باتوں کے باعث وہ طبقہ جن سے لوگ دعائیں کرواتے ہیں کہ یہ مظلوم ہیں انکی دعا خدا قبول کرتا ہے وہ اب مذہبی ٹھیکیداروں کو بد دعائیں دے رہا ہے۔
سولہویں صدی عیسویں میں اسلام عروج پر تھا اُسکی وجہ یہ تھی کہ خانقاہی نظام کا دور تھا، اولیائے اللہ کی خانقاہیں تھی جہاں سے دین کا پرچار ہوتا تھا اور باقاعدہ دینی و دنیاوی تعلیم کے بعد کسی کا اجازت ہوتی تھی کہ اب وہ جا کر معاشرے میں تبلیغ کر سکے۔ حال یہ تھا کہ چور، ڈاکو، بدکار ان خانقاہوں میں آتے تھے اور تربیت کے مراحل میں وہ ایسے شفاف ہیرے بن جاتے تھے کہ مثال نہیں ملتی تھی کیونکہ اولیائے اللہ اُس دین کے پیروکار تھے جو اللہ کا ہے وہ لوگوں کو محبت سے اللہ کی جانب راغب کر دیتے تھے اور آج جو زمانہ آ چُکا ہے کہ لوگ اللہ کی جانب راغب ہونا چاہتے ہیں کہ لیکن اُنکو وہ کنارہ نہیں ملتا جو اللہ تک لیجائے کیونکہ یہاں پر ہر کسی نے اپنی اپنی ڈوری پھینک دی ہے جسکا سرا ہر جگہ پہنچتا ہے سوائے اللہ کے۔ اب یہ مثال ہی لے لیں کہ خواجہ سرا انسان ہیں، دین خدا کا، دنیا خدا کی لیکن انسانوں پر انسان جینا محال کر رہا ہے۔ قیام پاکستان کے ستر سالوں بعد خواجہ سرا کمیونٹی کو پہچان ملی تھی جب ۲۰۱۸ میں ٹرانجینڈر ایکٹ پاس ہوا تھا لیکن صرف شک کی بنیاد پر کہ اس سے مرد مرد سے شادی کر لیگا اور عورت عورت سے شادی کر لیگی، لوگ اپنی جنس بدلوا لینگے، بس اسی شک کی بنا پر قانون ہی ختم کر ڈالو، مظلوم طبقے سے شناخت کھینچ لو، کیونکہ ہم طاقتور ہیں ہم سے زیادہ مذہب کو کوئی نہیں جانتا، ہم نے کتابوں کی کتابیں رٹی ہوئی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے آج کا خواجہ سرا وہ ناچ گانے والا خواجہ سرا نہیں ان میں سے بہت پڑھ لکھ گئے، ڈاکٹر اور پالیسی میکرز تک بن چُکے، اور نایاب ٹرانسجیںڈر اُن میں سے ایک ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے عالموں سے زیادہ تعلیمی و مذہبی علم رکھتی ہے۔
قارئین جب ۲۰۱۸ میں یہ بل پاس ہوا تو کسی کے کان پر جُوں نہ رینگی، رینگنی بھی نہیں چاہیئے تھی کیونکہ ایک مظلوم طبقے کو قیام پاکستان کے ۷۰ سال بعد پہچان ملی تھی، ہم دُنیا کو دکھاتے کہ یہ پاکستان ہیں جہاں پر ہر فرد کو اسکے مکمل حقوق حاصل ہیں۔ یہ ریاست ہے، ماں ہے، جس میں سب ایک جیسے ہیں ریاست کسی کو ترجیح نہیں دیتی لیکن یہاں پر کیونکہ اسلام ریاست ہے اس لئے کچھ لوگ اسلام کو ہی ہتھیار بنا لیتے ہیں جس سے عوام کو بطور ہتھیار استعمال کر لیتے ہیں اور یہی کچھ ٹرانسجینڈر بل میں بھی ہوا جب جماعت اسلام کے واحد سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں اس بل کے اندر ترامیم الیکشن کے آخری سال میں پیش کر دیں اور باقی چار سال وہ اسکی تحقیقات کرواتے رہے۔ آکر اب اسلامک ٹچ کا بھی زمانہ ہے، تبھی تو لوگ متوجہ ہونگے اور ووٹ بینک بنے گا۔ دین کیا کہتا ہے، سب جائے بھاڑ میں۔ اوپر سے ہم نے یہ کہہ دیا کہ یہ تو مغرب کا ایجنڈا ہے ٹرانسجنیڈر تو وہ لوگ ہیں جو اپنی جنس تبدیل کرتے ہیں۔ ارے بھائی اگر کسی فرد میں کوئی میڈیکل خرابی ہے اور علاج سے وہ ٹھیک ہو سکتا ہے تو کیا وہ اپنا علاج کروانا چھوڑ دے؟ اور کونسا مرد یا عورت اپنی جنس تبدیل کروائے گا جب اُسکا زہن اور حسیات اُسکی صنف کے متضاد ہوں؟ عجیب بات ہے لیکن جب اس پر اسلامک ٹچ لگ گیا تو معاشرہ تو جذباتی ہے کون گہرائی میں جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ٹچ کے باعث خواجہ سراوں کو ملنے والی پہچان پر ایک بار پھر فل سٹاپ لگ گیا اور اگر کوئی فرد ایسا کرتا بھی ہے تو کیا ریاست میں ہم جنس پرستی کی کوئی سزا نہیں ؟
جب یہ بل بنایا گیا تو اس پر کافی تحقیق کی گئی لیکن اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت سب سے آخر میں ہوئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی دینی مسئلہ ہو تو اسلامی نظریاتی کونسل ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ مسئلہ شرعی طور پر ٹھیک ہے یا غلط، لیکن یہ ایک بہت سنجیدہ اور ٹیکنیکل مسئلہ تھا جس پر میڈیکل اور سائیکلوجیکل پہلووں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری تھی اور آجکل جو دینی مدرسوں میں جو معیار ہے وہ ہر گز اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل ہی اس مشکل مسئلے کا حل تلاش کرتی کیونکہ معذرت کیساتھ مدرسوں میں ہم صرف انہی بچوں کو داخل کرواتے ہیں جو نالائق ہوتے ہیں اور پھر ہم کہتے ہیں چلو دینی علم حاصل کر لیگا کسی مسجد مدرسہ میں کام کر لیگا۔ لائق بچے تو کیپٹن بنتے ہیں، ڈاکٹر بنتے ہیں، پائلٹ و انجینئر بنتے ہیں، مدرسوں کو تو ہم نے معاشرے کے نالائق بچوں کا گڑھ بنا دیا ہے۔ ایسے میں یہ سنگین مسئلہ صرف ان لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی اور اب سے تو ان میں وہ بھی شامل ہوگئے جو اسلامک ٹچ دے کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں آپ سوچ رہے ہیں کون ہیں وہ؟ تو وہ وہی ہیں جنکی داڑھی میں تنکا ہے