چھ سات بچوں کو پانی سے نکالا تودیکھا میرے بچے بھی شامل ہیں ، ٹانڈہ ڈیم سے لاشیں نکالنے والا بدقسمت ماہر تیراک

 

اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے ٹانڈہ ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل جاری ہے اور ڈی پی او کوہاٹ کے مطابق آج مزید 20 لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھ گئی ہے

اتوار کو دیہات میر بش خیل اور سلیمان تالاب کے بچے پکنک کے لیے ٹانڈہ ڈیم گئے جہاں بچوں کو لے جانے والی کشتی الٹ گئی۔
اس حادثے میں صرف سات بچوں کو بچایا جاسکا جب کہ ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل تین روز سے جاری ہے۔
کوہاٹ کے قریب میر بخش خیل گا ئوں کے قریب واقع ٹانڈہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔ اس علاقے کے زیادہ تر لوگ اچھے تیراک ہیں اور سماجی کارکن شاہ محمود بھی ان میں شامل ہیں۔

ٹانڈہ ڈیم میں مدرسے کے طلبا کی کشتی الٹنے کی اطلاع ملتے ہی وہ بھی موقع پر پہنچ گئے اور بچوں کو پانی سے نکالنے کی کوششوں میں شامل ہوگئے۔
انہوں نے چھ سات بچوں کو پانی سے نکالا تو انہیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے بچے بھی شامل ہیں۔
الٹنے والی کشتی پر شاہ محمود کے دو بیٹے، چار بھانجے، دو کزن اور ایک رشتہ دار سوار تھے لیکن انہیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ انسانی ہمدردی کے تحت بچوں کو ڈیم کے گہرے پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بچوں کی اجتماعی نماز جنازہ کے دوران وہ بے حال ہو گئے، رونے سے آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔

شاہ محمود نے چھ سات بچوں کو پانی سے باہر نکالا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے بچے بھی شامل ہیں۔
شاہ محمود کا کہنا ہے جب میں نے پہلی بار ڈیم دیکھا تو میں بچوں کے سر دیکھ سکتا تھا، وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، وہ بچوں کی طرح رو رہے تھے۔ میں نے پانی میں چھلانگ لگائی اور تھوڑی دیر میں ہم نے چھ سات بچوں کو ایک ساتھ باہر نکالا۔’

باہر نکلا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی لسٹ دی، میں لسٹ کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچویں نمبر پر میرے بیٹے کا نام لکھا ہوا تھا اور ولدیت میں میرا نام لکھا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے میرے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔
اس کے بعد میں نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام دیکھا۔ میری حالت بدل رہی تھی۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ میرے چار بھانجوں کے نام بھی لکھے ہوئے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام بھی تھے،

شاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریبا ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر تقریبا آٹھ سال ہے، جب کہ ان کے بھانجے بھی تقریبا چار سے پانچ سال کے ہیں۔

شاہ محمود کا کہنا ہے کہ ‘میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر باہر نکالتا ہوں اور اب میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی زد میں آگئے ہیں۔’

شاہ محمود ٹنڈا ڈیم پر موجود تھے جہاں ریسکیو ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی تلاش کر رہے تھے۔

پہلے دن جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی لوگوں نے جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل میں کام کرنے والے ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 بچوں کو پانی سے باہر نکالا تھا، تاہم ان میں سے دس کی موت ہوچکی تھی۔

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ انہوں نے ریسکیو کیے گئے بچوں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کی، ‘کچھ بچے ایسے تھے جو بمشکل سانس لے رہے تھے، مصنوعی تنفس کے ذریعے ان کی سانسیں بحال کی گئیں اور انھیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا

‘اب دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، لیکن میں بچوں کو ان کی ماں کے پاس لے جا ئوں گا تاکہ اسے تسلی ہو۔’
کئی بچوں کے باپ اور بھائی ٹانڈہ ڈیم پر سرچ آپریشن دیکھ رہے تھے اور بے چین نظر آئے۔ حادثے کے بعد مقامی لوگوں کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی جس کی وجہ سے آپریشن میں مشکلات کا سامنا رہا۔

دولت خان جو کہ ڈیم کے کنارے تھا، اچانک چیخنے لگا کہ مجھے اندر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ میں جانتا ہوں کہ بچے پانی کے اندر کہاں ہوں گے۔’
وہ اونچی آواز میں یہ بات دہراتا رہا اور روتا رہا کچھ لوگ اسے تسلی دینے لگے۔
دولت خان نے بتایا کہ کشتی پر ان کے دو بیٹے سوار تھے جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔

دولت خان کے اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری کالج کے پرنسپل پروفیسر منال خان نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کے رہائشی ہیں اور چھ سال کی عمر سے ڈیم میں تیراکی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ کہاں ریت ہے، کہاں کیچڑ ہے اور ڈیم کے نیچے کہاں جھاڑیاں ہیں، اس لیے انہیں بچوں کو نکالنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک جن 18 بچوں کو بچا لیا گیا ہے انہیں مقامی لوگوں نے بچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حادثے میں ڈوبنے والے دولت خان کے دو بچوں کے علاوہ ان کے بھانجے بھی شامل ہیں۔

سلمان تالاب گا ئوں میں اجتماعی نماز جنازہ کے بعد قبرستان کے قریب چارپائیوں اور کرسیوں پر بزرگ اور نوجوان بیٹھے ہوئے تھے جہاں فاتحہ خوانی کی جا رہی تھی
ہر گھر میں ماتم کی لکیر ہے، کسی کے بچے مر گئے ہیں، کسی کے بچوں کی تلاش جاری ہے یہ وہ گاں ہے جہاں خوشی اور غم ایک جیسے ہیں۔

۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔

    اردو ورلڈ، کینیڈا میں بسنے والی اردو کمیونٹی کو ناصرف اپنی مادری زبان میں قومی و بین الاقوامی خبریں پہنچاتی ہے​ بلکہ امیگرینٹس کو اردو زبان میں مفیدمعلومات فراہم کرتی اور اردوکمیونٹی کی سرگرمیوں سے باخبر رکھتی ہے-​

     

    تمام مواد کے جملہ حقوق © 2025 اردو ورلڈ کینیڈا

    اردو ورلڈ، کینیڈا میں اشتہارات کے لئے اس نمبر پر 923455060897+ رابطہ کریں یا ای میل کریں urduworldcanada@gmail.com