اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)غیر ملکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کو ہلا کر رکھ دیا، مودی سرکار کو ایک بار پھر آئینہ دکھا دیا۔
نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مودی کے سائے میں بھارت دوسرا کشمیر بنے گا، امریکہ سے برطانیہ تک مودی بھارت کی ہنسی کا باعث بن گئے۔
یہ صرف 2023 میں ہندوستان میں انسانی حقوق اور گرتے ہوئے صحافتی معیار پر نیویارک ٹائمز کا گیارہواں اداریہ ہے۔ 2019 میں کشمیر ٹائمز نے انٹرنیٹ بند کرنے پر مودی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی۔ جوابی کارروائی میں مودی سرکار نے ہی اخبار کو بند کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف عدم برداشت اور تشدد کو مقبول بنایا ہے اور مودی پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو انکم ٹیکس چوری، دہشت گردی یا علیحدگی پسندی کے الزامات کی آڑ میں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اخبارات کو اشتہارات اور فنڈز کی آڑ میں من پسند خبریں شائع کرنے کے لیے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی منظم طریقے سے عدالتوں اور سرکاری مشینری کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ صرف میڈیا کھڑا ہے۔
بھارتی صحافی انو رادھابھاسن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ مودی کے صحافت مخالف اقدامات سے بھارت میں معلومات کا خلا پیدا ہوگیا ہے، مودی نئے قوانین کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کے بعد مودی اب اس ماڈل کو پورے ہندوستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مودی حکومت نے 20 سے زیادہ تنقیدی صحافیوں کے نام نو فلائی لسٹ میں ڈال دیے ہیں۔ کشمیر میں 1990 سے 2018 تک 19 صحافیوں کی ہلاکت کے باوجود صحافت بدستور متاثر ہے۔ ک
مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک صحافتی المیہ جنم لے رہا ہے اور بھارتی میڈیا پابندیوں اور معاشی فوائد سے بچنے کے لیے مودی کا منہ بولتا ثبوت بن گیا ہے، بی بی سی کی مودی مخالف سیریز اور انکم ٹیکس کی آڑ میں دفاتر کی نشریات بند کر دی ہیں۔ حملے صحافیوں کی آواز کو دبانے کا ایک حربہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ عالمی میڈیا کی جانب سے بار بار آواز اٹھانے کے بعد کیا اقوام متحدہ مودی کے فاشسٹ ایجنڈے کا کوئی نوٹس لے گا؟