رپورٹ کے مطابق پارٹی ذرائع کا خیال ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) طاقتور حلقوں کی ‘پسندیدہ سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ فیض حمید اور سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ اور ثاقب نثار کے احتساب سے متعلق سخت موقف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس مثالی تعلق کو خراب کر سکتا ہے۔
لندن میں 4 سال گزارنے کے بعد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے والے ہیں لیکن وہ جن جرنیلوں اور ججوں کو 2017 میں اقتدار سے ہٹانے کی ‘سازش میں ملوث قرار دیتے ہیںان کو ریلیف دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتے
تاہم پارٹی کے موجودہ صدر اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے لندن میں ہونے والی حالیہ میٹنگ میں انہیں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پارٹی ممکنہ ردعمل سے چوکنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں اور کارکنوں سے ملاقات کے دوران شہباز شریف نے لندن سے احتساب کے حوالے سے دی گئی نیوز بریفنگ پر برہمی کا اظہار کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ پارٹی کے گزشتہ اجلاس میں احتساب کے معاملے پر بات ہوئی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔
نوازشریف کے خلاف سازش کی وجہ سے عوام کو مہنگائی ملی : مریم نواز
پارٹی کے کچھ لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ ‘جنرل مخالف اور جج مخالف بیانیہ کے ممکنہ ردعمل سے پریشان ہیں ایک رکن نے رائے دی کہ ہمیں باجوہ مخالف بیانیے سے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ 2014 میں، جنرل مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ہمیں ماضی کو بھلا کر مفاہمت کی طرف بڑھنا چاہیے، کون جانتا ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں احتساب کا یہ نعرہ، مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو کہاں لے جائے گا
ان کے مطابق، مسلم لیگ (ن) اقتدار حاصل کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے اور کوئی بھی ‘غلط اقدام اس پیش رفت کو پلٹ سکتا ہے، ہمیں عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کی صورتحال کو نہیں بھولنا چاہیے۔
نوازشریف21 اکتوبر کو وطن واپس آئیں گے،عوام استقبال کی تیاری کریں، شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے بیشتر رہنما ایسے وقت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی اپنانے کی ضرورت پر سوال اٹھا رہے ہیں جب پی ٹی آئی کو ‘اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی سمجھا جا رہا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس اور بھی بہت سی چیزیں/کارنامے ہیں جنہیں استعمال کرکے وہ اپنا بیانیہ بنا سکتی ہے، ووٹ حاصل کرنے کے لیے سابق جرنیلوں سے مقابلہ کیوں ضروری ہے؟
ایک اور رہنما نے کہا کہ نواز شریف کے جرنیلوں اور ججوں کے احتساب سے متعلق بیانات پر ردعمل دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس موضوع کو انتخابات تک چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو احتساب کا یہ مسئلہ دوبارہ اٹھایا جا سکتا ہے، فی الحال ہمیں اپنے بیانیے کو معاشی بحران پر مرکوز رکھنا چاہیے، بلیم گیم کوئی حل پیش نہیں کر رہی