اس ماہ کے شروع میں حکومت نے تمام تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ملک نہیں چھوڑا تو انہیں قید کر کے متعلقہ ممالک کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
اس فیصلے پر افغانستان اور دیگر کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی تاہم حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد کسی خاص گروہ یا ملک کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں
غیر ملکیوں کی پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن ختم، آپریشن کی تیاریاں
پاکستان میں 20 لاکھ سے زیادہ غیر دستاویزی افغان باشندے رہتے ہیں، جن میں سے کم از کم 600,000 ایسے لوگ ہیں جو اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی سرزمین پر آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلپو گرانڈی کو لکھے گئے خط میں ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے سے انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ جبری وطن واپسی کے مترادف ہے جسے روایتی بین الاقوامی قانون کے تحت تسلیم نہیں کیا جاتا اور یہ ہمیشہ کمزور پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں کو متاثر کرے گا جن میں خواتین، بچے، بوڑھے، معذور افراد، کم آمدنی والے افراد شامل ہیں
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کے باوجود حکومت کی جانب سے فیصلے پر نظرثانی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں بڑھتے ہوئے جرائم،غیر قانونی طور پر مقیم 11 لاکھ افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ
خط میں کہا گیا ہے کہ HRCP کو افغان شہریوں کو ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے، بھتہ خوری اور گرفتاریوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں جبکہ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ 77 افغان مہاجرین کو پہلے سے قانونی دستاویزات ہونے کے باوجود ملک بدر کیا گیا۔
انہوں نے خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان نان ریفولمنٹ کے عالمی روایتی قوانین کا پابند ہے جو کسی کو ایسی جگہ ڈی پورٹ کرنے سے منع کرتا ہے جہاں اسے ظلم، تشدد، ناروا سلوک یا زندگی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو۔
خط میں کہا گیا ہے کہ HRCP کا خیال ہے کہ اس تناظر میں حکومت پاکستان کے اقدامات روایتی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں
انہوں نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے سے کہا کہ وہ حکومت پاکستان سے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن میں توسیع کرنے کا مطالبہ کرے