گزشتہ چند روز سے پی ٹی آئی چیئرمین کے عہدے کے حوالے سے ابہام پایا جاتا تھا کہ وہ عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں یا نہیں اور اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے آج پریس کانفرنس میں وضاحت کی
اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز جیل میں عمران خان سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے قانونی مشاورت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا وہ قانونی طور پر انٹرا پارٹی الیکشن لڑ سکتے ہیں؟ اور اگر وہ اس میں حصہ لیتے ہیں تو کیا الیکشن کمیشن اس الیکشن کو کالعدم قرار دے گا یا نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان کے کیسز کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عمران خان الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں تاہم اس سے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا موقع مل سکتا ہے جو وہ نہیں چاہتے تھے
اس لیے انہوں نے بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کا قائم مقام چیئرمین نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے نگران کے طور پر کام کرتے رہیں گے جب کہ عمران خان ہی پارٹی کے اصل چیئرمین ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میرے پاس عمران خان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں لیکن جب تک عمران خان واپس نہیں آتے میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین رہوں گا۔ تحریک انصاف کا نظریہ، جدوجہد وہی رہے گی
نئے پارٹی چیئرمین کی نامزدگی کے اس اچانک فیصلے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان کون ہیں جنہوں نے اس عہدے کے لیے ‘وائلڈ کارڈ انٹری کرائی؟
تحریک انصاف کا نیا چیئرمین کون؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی چیئرمین شپ کے لیے عمران خان کے نامزد امیدوار بیرسٹر گوہر علی خان سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔
بیرسٹر گوہر علی خان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر سے ہے اور وہ تحریک انصاف سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اور وہ 2008 کے عام انتخابات میں تیر کے نشان پر الیکشن لڑے تھے۔
اس کے بعد وہ طویل عرصے تک سیاسی میدان سے دور رہے اور سیاسی جماعتوں کے مقدمات میں بطور وکیل عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
بیرسٹر گوہر نے یونیورسٹی آف وولور ہیمپٹن، برطانیہ سے ایل ایل بی اور واشنگٹن سول آف لاء سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی ہے۔
بیرسٹر گوہر کئی سالوں سے اعتراز احسن اینڈ ایسوسی ایٹس سے وابستہ رہے اور اعتزاز احسن کی براہ راست نگرانی میں قانون کی پریکٹس کرتے رہے۔
اعتزاز احسن کے ساتھ ساتھ بیرسٹر گوہر بھی 2007 میں وکلاء تحریک میں نمایاں رہے، وہ افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے حوالے سے مقدمہ لڑنے میں اعتزاز احسن کے معاون تھے۔ تاہم وہ وکلاء سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں تھے۔
بیرسٹر گوہر خان گزشتہ ایک سال سے عمران خان کی قانونی ٹیم کے اہم رکن ہیں، تمام قانونی معاملات کو ہینڈل کرتے ہیں اور قانونی معاملات پر پارٹی کے فوکل پرسن بھی ہیں۔
ابتدا میں بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس اور عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کے توہین عدالت کیسز کی پیروی کر رہے تھے لیکن پھر جب تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مقدمات کا انبار لگا تو ان کے چیلنجز بڑھ گئے وہیں پارٹی میں ان کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی۔
بیرسٹر گوہر خود کو سیاسی کارکن سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ‘سیاسی کارکن کا کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق ضرور ہوتا ہے
واضح رہے کہ انہوں نے 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور بہت کم ووٹوں سے ہار گئے تھے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ وہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ تھے لیکن پھر خاموشی سے اس پارٹی سے خود کو دور کر لیا۔
ان کے بقول تحریک انصاف میں شمولیت کی خاص وجہ یہ ہے کہ ‘یہ ایک عام آدمی کی پارٹی ہے اور ہر قابل بندے کی پارٹی ہے
بیرسٹر گوہر کے مطابق ‘2008 میں تھوڑے مارجن سے ہارنے کے بعدمیرے پاس دو راستے تھےیا تو سیاسی طور پر جدوجہد جاری رکھوں اور الیکشن جیتوں یا پھر کارپوریٹ اور آئینی مسائل پر وکالت کرکے لوگوں کی خدمت کروں ان کے مطابق انہوں نے دوسرا آپشن چنا اور پھر وکالت میں مگن ہو گئے۔
بیرسٹر گوہر علی خان اس دور میں پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے مقدمات میں وکیل کی حیثیت سے مختلف مقدمات میں پیش ہوئے۔
بیرسٹر گوہر پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی اور پی کے ایم اے پی کے سربراہ محمود اچکزئی کے وکیل کے طور پر عدالتوں میں پیش ہوئے۔
2015 سے وہ تحریک انصاف کے اکثر کیسز میں پیش ہوتے رہے اور پھر جولائی 2022 میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔
اگرچہ تحریک انصاف اب انٹرا پارٹی انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن وہ اب بھی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پارٹی ڈھانچے سے متاثر ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں کو جمہوری جماعتیں سمجھتے ہیں۔
ان کی رائے میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم عام لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ‘اب عمران خان تحریک انصاف میں بھی یہ کلچر متعارف کروا رہے ہیں شاید وہ اپنی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
تحریک انصاف کے دو سینئر رہنماؤںکے مطابق بیرسٹر گوہر علی کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایک عرصے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مقدمات کی قیادت کر رہے ہیں۔
ایک رہنما کے مطابق ان کی خدمات کی وجہ سے ہی عمران خان نے انہیں تحریک انصاف کا باقاعدہ حصہ بنایا۔ ایک اور رہنما کے مطابق 9 مئی کے بعد بیرسٹر گوہر کو باضابطہ طور پر تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا حصہ بنایا گیا تاکہ وہ براہ راست پارٹی کو بریفنگ دے سکیں۔