برطانیہ کے سینٹر فار ایکولوجی اینڈ ہائیڈروولوجی کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوائی، ٹونگا اور ازورس جیسے علاقوں میں انسانوں کی آمد کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں، جن میں جنگلات کی کٹائی اور حد سے زیادہ شکار شامل ہیں، جس کے نتیجے میں پرندوں کی کئی نامعلوم نسلیں معدوم ہو گئیں۔سائنسدانوں کے ایک نئے اندازے کے مطابق پرندوں کی نو اقسام میں سے ایک ناپید ہو چکی ہے۔ محققین کی رپورٹ کردہ شرح موجودہ تخمینہ سے دوگنی ہے۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تاریخ میں سب سے بڑی کشیرکا ناپید انسانوں کی وجہ سے ہوئی۔پرندوں کی معدومیت کو 16 ویں صدی سے ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن اس سے پہلے ناپید ہونے والی انواع کے لیے سائنس دان فوسلز پر انحصار کرتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈ بہت محدود ہیں کیونکہ پرندوں کی ہلکی پھلکی ہڈیاں وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ جاتی ہیں، جس سے عالمی معدومیت کے حقیقی پیمانے پر پردہ پڑ جاتا ہے۔محققین اب یقین رکھتے ہیں کہ 1,430 پرندوں کی انواع (تقریبا 12 فیصد) 130,000 سال قبل پلائسٹوسین کے خاتمے سے لے کر جدید انسانی تاریخ کے اختتام تک ناپید ہو چکی ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ ان پرجاتیوں کی ایک بڑی تعداد کے معدوم ہونے کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ طور پر انسانی سرگرمیوں سے ہے۔اس تحقیق کے سرکردہ مصنف ڈاکٹر روب کک کے مطابق، تحقیق بتاتی ہے کہ انسانوں نے پرندوں کی نسلوں کو اس سے زیادہ متاثر کیا ہے جتنا پہلے سوچا جاتا تھا۔